آج کا بڑا سوال، جو کوچہ و بازار میں عام ہے وہ یہ ہے کہ کیا نئی حکومت اپنا دور پورا کرے گی؟حکومت ابھی شروع نہیں ہوئی لیکن اس کے خاتمے کے خدشات کئی ذہنوں میں پہلے ہی جنم لے چکے ہیں۔ آخر یہ کمزوریاں کیوں ہیں اور ایسے خطرات اور خدشات کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا جائزہ بہت ضروری ہے۔ مگر ان کمزوریوں ، اعتماد کے فقدان اور تکنیکی مسائل کا آخر کن افراد نے جائزہ لیناہے؟ اگر جائزہ قیادت نے لینا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ معاملات بہتر ہوں تو پھر سیاسی قیادت سپر ! اگر ایسی باتوں کا گاہے گاہے جائزہ مقتدرہ قوتوں نے لینا ہے تو پھر مقتدرہ قوتیں سپر (بالادست) ہیں۔ پہلے تو یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا کہ، سپر کون؟ اگر سپر کا تعین ہوگیا تو سمجھ لیجیے گا تبدیلی کا آغاز ہوگیا۔ اگر نہیں ہوا ،تو سب افسانے ہیں۔
زیادہ تر لوگوں کے اپنی اپنی بساط کے مطابق اصول ہوتے ہیں۔ کچھ اقوام کے نزدیک امن ہی ترقی ہے ، کچھ کے ہاں امن تو ہے مگر ایکسپورٹ کا فقدان ہے، کوئی اسلحہ سازی کا متلاشی ہے تو کوئی قوم ہر صورت میں بین الاقوامی چودھراہٹ کی خواہاں ہے! پاکستان بیک وقت سب کچھ چاہتا ہے، بہت سی چاہتیں اس کی ضرورت ہیں، بے شمار چیلنجز اس کے سامنے کھڑے ہیں، کئی منزلیں اس کی منتظر ہیں ، مگر کچھ منزلیں 70 سال سے پاکستان کا انتظار کررہی ہیں لیکن پاکستان ازخود اپنی قیادتوں اور سیاستوں کے سبب دائروں کے سفر میں ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے پاکستانی ادارے حقیقی انسٹیٹیوشنز بن جائیں لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی جماعتیں ازخود انسٹیٹیوشنز نہیں بنتیں۔ ان بنیادی چیزوں کے بغیر کسی تبدیلی کے سیاسی نعرے تو لگائے جاسکتے ہیں، عوام کو بےوقوف تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ایسے چکر دینے سے منزل کا حصول ممکن نہیں۔
عمران خان کی حکومت سے کس کو توقعات نہیں؟ کم و بیش ہر دوسرے فرد کا یہی کہنا ہے کہ، تبدیلی ممکن ہے بے شک یہ تھوڑی ہو مگر ہوگی ضرور ، اگر مقتدرہ قوتوں نے بدستور ساتھ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی توقعات عمران خان سے ہیں کسی سسٹم سے نہیں۔ اگر عمران خان کسی سسٹم میں نہیں یا کوئی سسٹم عمران خان میں نہیں ، تو یہ بھی ایک افسانہ ہوگا کوئی حقیقت نہیں۔ وہ افسانہ جو کبھی بے نظیر بھٹو شہید بھی بنی اور ایک دوسرے زاویے سے کراچی کا ایک "بھائی" بھی۔ شاید کچھ اہل نظر کو یہ واقعہ اور وہ تحریر یاد ہو جو ایک امریکی صحافی نے بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریبات دیکھنے کے بعدلکھی۔ اس کا کہنا تھا کہ، میں نے بے نظیر کی شادی کی اوپن دعوت میں عام آدمی کے دل میں والہانہ محبت اور احترام دیکھا، تقریب میں آئے لوگوں کی آنکھوں میں امید کی شمعیں فروزاں دیکھیں، لوگوں کے ذہن و قلب میں تھا جیسے بے نظیر کے ہاتھ میں کوئی جادو کی چھڑی ہو کہ یہ جونہی وزیراعظم پاکستان بنیں تو عوام اور کارکنان کی قسمت بدل جائے گی۔۔۔۔ امریکی صحافی نے قبل از وقت ہی انکشاف کردیا تھا کہ، بے نظیر بھٹو ناکام وزیراعظم ہوں گی۔ وجہ یہ بتائی کہ جتنی امیدیں عوام نے اس لیڈر سے وابستہ کرلی ہیں اتنی امیدیں معجزے تو پوری کرسکتے ہیں ، انسان نہیں، پھر ملک و قوم بھی وہ ہوں جہاں تند نہیں تانی بگڑی ہو۔
ایسی ہی، ایک بات ایک اور زاویے سے کراچی والے "بھائی" سے وابستہ ہوئی، اس سے بھی لوگ انتہائی امیدیں وابستہ کر بیٹھے۔ یہ امیدیں ایک فرد سے تھیں ، جس کے کارکن بھائی کے اشاروں پر جان دینے کیلئے بھی منتظر رہتے۔ مگر آخر کیا ہوا۔ ایک دردناک ، افسوسناک، غیر واضح اور ناپسندیدہ اخیر۔ امیدیں کچھ اور نتیجہ کچھ۔ بے نظیر بھٹو والی ناکامی تو معمول کے مطابق تھی مگر بھائی والی غیر معمولی اور بھائی کے اقدامات ہی بنیادی طور پر ناپسندیدہ قرار پائے۔
میاں نواز شریف کے چاہنے والوں کی بھی کبھی کمی نہ تھی اور نہ اب چاہنے والوں میں کوئی کمی آئی ہے۔ انہیں شروع میں کامیابی بھٹو مخالفین عوام اور طلسم جنرل ضیاءالحق سے ملا رفتہ رفتہ یہ خود سیاست کی ہستی کا ساماں ہوگئے۔ بس پھر کیا ہوا ، سب جانتے ہیں مشرف دور میں اگر فی کس قرضے چالیس ہزار ہوئے تو زرداری دور میں فی کس اسی ہزار اور میاں نواز شریف کے سابقہ دور تک زرداری صاحب سے ڈبل۔ کیونکہ شخصیات چمکتی رہیں، چمکاتی رہیں اور سسٹم اندھے کنوﺅں میں دھکیلا جاتا رہا ہے وہ المیہ یا یہی ہیں وہ المیے کہ جو تبدیلی نہ لاسکے۔ ہم سمجھتے رہے ہم پچھلے عشرے سے بہتر ہیں جو محض ایک ارتقاءتھا ، اور ہم ارتقاﺅں کو انقلاب گردانتے رہے۔ میاں صاحب ہمیشہ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ آئے مگر ناکام ہوئے، ہمیشہ ہردلعزیزی ان کے سنگ سنگ رہی مگر وہ ناکام رہے۔ وجہ کیا ہوئی؟ وجہ یہ کہ انہوں نے اپنی اداو¿ں اور خواہشات کو سسٹم بنا لیا۔ کبھی دوست پیچھے کرکے بیوروکریسی کو آگے لاتے رہے، کبھی اپنی ذات کو اصول ہی بنا ڈالا اور سسٹم کا بھی بھٹہ بٹھا ڈالا۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کم کرشموں والی تھی۔ کیا ہردلعزیزی بھٹو کی گھاٹ سے پانی نہیں بھرنے آتی تھی؟ پھر بھٹو نے تو 1973 کا باکمال آئین بھی دیا تھا۔ بین الاقوامی لیڈری بھی بھٹو کی خوب جمی۔ مسلم امہ نے قائد مانا۔بھٹو جیسی عوامی پذیرائی ، بگڑے ہوئے حالات اور ٹوٹے ہوئے ملک میں لوہا منوانا ایک بڑی بصیرت تھی تاہم وہ بھی آخر اپنی شخصیت اور ہردلعزیزی کے جال ہی میں پھنس گئے، سسٹم سے نکل گئے اور سسٹم ان سے نکل گیا اور سب بے نتیجہ بنتا چلا گیا۔ اب سوال جو مشکل سوال لگتا ہے وہ یہ کہ سسٹم ہے کیا اور بنے گا کیسے؟؟ یقین جانئے یہ آسان کام ہے بس ضرورت ہے تو محض اخلاص کی اور دیانتداری کی باقی تو سب اوکے ہے، اوکے! جی، وہ سسٹم آئین میں موجود ہے جسے بس بروئے کار لانا ہے۔ دوسری بات یہ کہ، لیڈران کے لئے خود احتسابی اور باہمی احتساب لازم ہے۔ احتساب بیورو تو ایک طمانچہ ہے گر کہیں کوئی قیادت دستیاب ہے۔ لیڈران تو چشم بینا رکھتے ہیں ان کے تو ہر کمرے اور آماجگاہ میں آئینے کی شکل میں "نیب" موجود ہے۔ گویا آئین سسٹم ہے اور "آئینہ" نیب۔
تبدیلی اور بہتری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایسے جیسے انقلاب اور سماجی ارتقاءمیں زمیں آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ عمرانی تبدیلی کا مطلب دراصل انقلاب کاہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ، عمران خان اپنی موجودہ ٹیم سے انقلاب لاسکتے ہیں تو اسے حسن ظن کا کمال تو کہا جاسکتا ہے حقیقت پسندی نہیں۔ عمران خان کے اقتدار کے راستے زرداری و شریف کرپشن نے کھولے اور ہموار کئے۔ پھر عمران خان نے اور عوام نے دو مفروضوں کو تقویت بخشی کہ، (1) نواز و زرداری فارغ تو سب درست ہوجائے گا۔ (2) کپتان ٹھیک ہو گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کبھی ہم نے سوچا کہ پہلے اگر 22/23 خاندان حاکم تھے تو اب 50 خاندانوں کی بالادستی ہوگئی اور ان سب خاندانوں کی آپس میں جدید نیٹ ورکنگ ہے ، اور کیا یہ تبدیلی آنے دیں گے۔ تبدیلی کا تو مطلب ہے کہ محمود و ایاز ایک صف میں اور عوام کی حکمرانی۔ عوام کی حکمرانی کا مطلب تو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی حکمرانی کا مطلب میراثی اور نمبردار کی ایک عزت ہو گی کیا یہ موجودہ سیٹ اپ میں ممکن ہے؟ جہاں ایک لاکھ پچیس ہزار ووٹ لے کر ہارنے اور ایک لاکھ پچیس ہزار پانچ سو دس ووٹ لے کر جیتنے پر نظر دوڑائیں تو پانچ سو دس کی قدر ہے اور ایک لاکھ پچیس ہزار رہ گیا اور بن گیا زیرو، تو کیسی سماجی شماریات ہے اور کیسی بائیو کیمسٹری؟ وہ بھی مر کھپ گئے جو کبھی متناسب نمائندگی کی بات کرتے تھے جس سے ہر ووٹر بنتا ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ گویا اب کوئی بھی متناسب نمائندگی کی بات نہیں کرتا۔ کل کے 23 یا آج کے 50 خاندان کرنے دیں گے متناسب نمائندگی کی بات، تبدیلی کی بات، انسانی حقوق اور انصاف کی بات؟؟؟ مہاتیر محمد اور اردوان بننے سے قبل ڈلیور کرنا پڑتا ہے۔ مفروضوں کے ڈیڈکشن یا تھیوری اور پھر قانون بننے میں دیر لگتی ہے اور عمل بھی درکار ہے، محض سیاسی ہتھکنڈے یا سیاسی نعرے کافی نہیں۔
بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات میں خارجہ امور پر مس انڈر سٹینڈنگ جگ ہنسائی کا سبب بننا، غلط ہوا۔ ابتدا ہی میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کا رنگ درست نہ نکلنا اور ایک دوسرے کو یہاں بھی جھوٹے قرار دینا ناتجربہ کاری کا خمیازہ ہے جو بھگتنا پڑا۔ یہی نہیں وزارتی و دیگر صوابدیدی اختیارات کو ختم کرنے کے لئے جنبش قلم ناکافی تھی، آئین یا ایکٹ کو فراموش کیا گیا ، کیوں بھول گئے کہ کچھ آئینی ترامیم درکار ہوں گی۔ یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے اسمبلیاں قانون ساز ادارے ہوتے ہیں اور کیا آئینی ترامیم اور آئین سازی کیلئے عمران خان کی ٹیم کے پاس مطلوبہ ممبران ہیں ؟ نہیں ہیں تو کرنے پڑیں گے۔ کوئی ہارس ٹریڈنگ یا فارورڈ بلاک کبھی بناﺅ نہیں یہ صرف بگاڑ دیتے ہیں ، بناﺅ کے لئے افہام و تفہیم اور اپوزیشن سے ڈائیلاگ درکار ہیں۔ پس اتنی نہ بڑھائیں پاکی ¿ داماں کی حکایت۔
آج کے سوال کا جواب بنتا ہے کہ، حکومت اپنا دور واقعی پورا کرے گی۔ اس کیلئے حقیقت پسندی کی جانب آئیں تکبر سے نہیں تدبر سے کام چلے گا۔ اپنی بساط بڑھائیں جو پہلے کافی نہیں اور اصول وضع کریں اب نعرے نہیں، قوم کو امن بھی چاہئے اور انصاف بھی ، ایکسپورٹ بھی اور تعلیم و صحت بھی۔ ترقی و منصوبہ بندی کریں جتنا بھی کرپشن کا راگ الاپنا تھا وہ سب بطور اپوزیشن کارگر تھا اب ترقیاتی کاموںمیں ن لیگ کو اور آئین سازی میں پیپلزپارٹی کو پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ اور ہوم ورک آپ کے پاس نہیں وزیر اعلی پنجاب اور وفاقی کابینہ تو آپ کو اپنی نظریاتی صفوں میں ملی نہیں، باقی آپ کی مرضی۔ سسٹم کا معاملہ یہ ہے کہ بات کسی وزیر اعلیٰ سے ہو یا وزیر سے جب وژن کا پوچھیں تو جواب ملتا ہے عمران خان بتائیں گے، عمران خان جانتے ہیں۔۔ کہیں یہ نہ ہوکہ سب "بھائی" جانتا ہے۔ اور سسٹم کوئی نہیں اور بساط کنٹینر پر نعرے لگانے گئی ہے۔ مقبول ہوتے ہیں تو سب الیکشن جیتتے ہیں اصل کہانی تو جیت کے بعد شروع ہوتی ہے۔
جاگتے رہئے، اور سسٹم میں رہئے!
Aug 27, 2018