رب کریم نے قرآن کریم میں فرمایا: ”تمام بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں“۔ جس طرح فطرة آزاد ہے اسی طرح تمام بچے آزاد پیدا ہوتے ہیں ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں فرانس کے مشہور فلسفی جین جیکس روسو نے کہا: ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر آج کل وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے “۔ روسو نے انسانوں کی آزادی اور معاشرہ میں فرائض و حقوق کی تشریح کرکے ایک متوازن اور مستحکم معاشرتی اور مملکتی نظام اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے متعلق ”سوشل کنٹریکٹ “ کے عنوان سے کتاب لکھی اور آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا پرچار کرتا رہا ۔ روسو کی کتاب کو فرانسیی پارلیمان کی دہلیز پر جلا یا گیا اور روسو کو بھی صوبتیں جھیلنی پڑیں ۔ مگر ان کی تصانیف ”دا سوشل کنٹریکٹ “ اور ”ڈسکورس آن ان ایکوالٹی “ کی بدولت ، یورپ میں ظلم و ستم سے آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے معاملہ میں عوام میں شعور پیدا ہوا اور فرانس میں انقلاب آیا جو ”فرنچ ریولیوشن “ یعنی انقلاب فرانس کے نام سے مشہور ہے۔
آج سے 1430برس قبل پیغمبر حضرت محمد نے دین اسلام کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق یقینی بنائے ۔ اپنے آخری خطاب میں حضور نے فرمایا”کسی عرب کو عجمی پر گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ۔ شوہر کے اپنی بیوی پر او ربیوی کو اپنے شوہر پر حقوق ہیں“ ۔ اسلام میں ہر شہری ، ہر انسان کے بنیادی حقوق برابری کے بنیاد پر محفوظ ہیں ۔
اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کنوینٹ ، سوشل اینڈ پولیٹیکل رائٹس “ جنرل اسمبلی کی قرارداد 2200A (XXI) بتاریخ 16دسمبر 1966جسے 23مارچ 1967کو نافذ العمل کیا گیا ہے ان کے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کاتحفظ ریاستوں کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے چندایسے حقوق ہیں جو ریاستیں قانون سازی کرکے اپنے شہریوں سے ان کے حقوق چھین لیتی ہیں ان کا ذکر ضروری ہے۔
تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد ہیں حقوق اور وقار کے لحاظ سے برابر ہیں۔ہر شخص سارے حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے۔ ہر شخص کو زندگی ، آزادی اور شخصی تحفظ کا حق حاصل ہے اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں ۔ ہر شخص کو بغیر مداخلت ، سوچنے، بولنے ، اپنی سوچ کو زبانی ،تحریری یا کسی بھی ذریعے دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو بغیر مداخلت ، سوچنے ، بولنے اپنی سوچ کو زبانی ، تحریری یا کسی بھی ذریعے دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو پرامن اجتماع کرنے اور جماعتیں بنانے کا حق حاصل ہے کسی کو بھی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو قومی معاملات اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ اور برابری کی بنیاد پر قومی ملازمت کرنے کا حق حاصل ہے۔“
دستور پاکستان 1973میں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہیں اور ہر پاکستانی کو وہ تمام حقوق دئیے گئے جو اقوام متحدہ کے UNDHR december 1948 میں اقوام عالم کو یقینی بنانے کے لئے کہا گیا ہے ۔ گہرائی سے غور کیا جائے تو اقوام متحدہ اور دستور پاکستان 1973میں وہ تمام حقوق دئیے گئے جو حضور پر نازل ہوئے قرآن پاک میں دئیے گئے ہیں اور ان پر حضور نے خود عمل کرکے اپنے اسوہ کو آنے والی نسلوں کے لئے مثال بنا دیا ہے۔ دین اسلام میں برابری کے ساتھ ہر انسان کے بنیادی انسانی حقوق دینے کو یقینی بنایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق پر قدغن کی شروعات آزادی سے ڈیڑھ برس بعد ہوئیں۔ ملک میں ابھی دستور نہیں بنا تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935میں انڈیا کی جگہ پاکستان کا لفظ شامل کرکے اور دیگر معمولی قسم کی ترامیم کرکے دستور کے طور پر لاگو کیا گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی کی بنیاد پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی رکھی تھی۔ علمائے ہندوستان و پاکستان کو دعوت دی کہ جس مقصد کے لئے یعنی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے مقصد کے لئے بنا ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے دستور کا اسلامی خاکہ بنا کر دستور سازی کے لئے پیش کیا جائے مگر ملک کا دستور نہ تو قائداعظم نہ ہی لیاقت علی خان کی حیاتی میں بن پایا۔ لیاقت علی خان نے PRODA,14 january 1949کا قانون بنایا جو کہ 14اگست 1947سے نافذ العمل ہوا۔ اس کے تحت عوامی نمائندگان شہریوں کو 10برس تک قومی نمائندگی کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ۔ جنرل ایوب خان کی مطلق العنان حکومت نے POD 1959 نافذ کیا جس کے تحت ملک کے انتظام میں حصہ لینے والے سرکاری عہدے داروں کو یک جنبش قلم ہٹا کر ان کو قومی ذمہ داریوں میں حصہ لینے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کیا جاتا رہا ۔ حالانکہ ان کے لئے ”سول سروس ریگولیشن میں جزا اور سزا کا ایک طریقہ کار پہلے سے موجود تھا جواب بھی موجود ہے عوامی نمائندوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنے کیلئے ایبڈو (1959ء) جس کے تحت انہیں تاحیات نااہل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بھٹو دور میں 1973ءکا دستور نافذ ہوا تو کسی سے جبری طور پر اس کے بنیادی انسانی حقوق نہیں چھینے گئے۔ جنرل ضیاالحق کے مطلق العنانی دور میں کسی کے بنیادی انسانی حقوق نہیں رہے۔ سیاسی ورکروں اور عوامی نمائندگان کو جیلوں میں ڈالا جاتا اور ان ضمیر کے قیدیوں کو سرعام ٹکٹکیوں پر باندھ کر ان کے ننگے جسموں پر پوری قوت کے ساتھ کوڑے برسائے جاتے تھے۔ ملک میں خوف کا راج تھا۔ جنرل ضیاالحق کے بعد دس برس تک جمہوری حکومتیں رہیں ، ان میں بنیادی انسانی حقوق دستور 1973ءکے مطابق محفوظ رہے تاہم دستور میں ایسی ترامیم ہوئیں جن میں عوامی نمائندگان کو یعنی پوری کی پوری قومی اسمبلی کو قانونی مدت پوری کرنے کے بنیادی حق سے محروم کیا جاتا رہا۔
جنرل پرویز مشرف کے مطلق العنان دور میں خوف کی حکمرانی رہی۔ لوگ غائب کئے جاتے رہے، یہاں تک کہ ان کے زندہ رہنے کی بنیادی انسانی حق سے محروم کیا جاتا رہا۔ دستور 1973ءکے تحت وفاقی اور صوبائی محتسب کے ادارے موجود ہیں۔ سول سروسز رولز بھی نافذالعمل ہیں مگر جنرل پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو بنایا جس کے ذریعے کسی بھی شخص کو قید کرکے انہیں اثاثہ جات ، جائیداد سے محروم کرکے پابند سلاسل کیا جاتا رہا اور شہریوں کو پانچ برس یا تاحیات ملک کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا رہا۔یہ قانون اب بھی نافذ العمل ہے اور سزاﺅں کا سلسلہ جاری ہے۔
انسانی اعمال پر سزا اور جزا کا ایک معیار ہے اور طریقہ کار ہے جو ہر مذہب اور ہر تہذیب میں مروج رہا ہے۔ حکومت برطانیہ نے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینے کیلئے اصلاحات کیں اور نیا قانون 2000 سے نافذ کیا۔ ان میں بھی اقوام متحدہ کے رہنماءقوانین کے مطابق تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد دس سال جمہوری حکومتیں رہیں مگر انہوں نے قومی احتساب بیورو جیسے ادارے کو جاری رکھا۔ اب یہ ادارہ تلوار کی طرح ہر عام و خاص کے سر پر لٹک رہا ہے۔ اگر ختم نہیںکرسکتے تھے تو اس میں اصلاح کرسکتے تھے۔ پہلے سے موجودہ و فاقی محتسب اور صوبائی محتسب کے اداروں کو زیادہ اختیارات دینے کیلئے دستور میں ترمیم کردیتے متوازی ادارے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر احتساب بیورو کو جاری رکھنا ہی تھا تو اسے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس کروانے کے علاوہ دیگر بنیادی انسانی حقوق چھیننے کے اختیارات ختم کردیتے۔ قانون سازی کرکے شہریوں کی حفاظت کرتے تاکہ عدالتیں شہریوں کو ان کی جائیداد اور عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کرکے جیلوں میں کئی برسوں تک رہنے کے حکم نامے جاری کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ موجودہ حکومت کیلئے جرم و سزا سے متعلق متوازی قانون سازی کرنا ایک چیلنج ہے۔ ضروری ہے کہ قانون سازی کرکے نیب قوانین میں اصلاح کی جائے اور بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ سابق حکومت کے اہم ارکان احتساب بیورو کی دی ہوئی سزائیں بھگت رہے ہیں اور اپنے بنیادی انسانی حقوق کھو بیٹھے ہیں۔ زیادہ عوامی نمائندے اور انتظامیہ کے اہلکار احتساب بیورو کی زد میں آگئے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں موجودہ حکمرانوں کے اہلکار اور نمائندے احتساب بیورو کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے تاکہ عدلیہ اور احتساب بیورو عوامی نمائندگان انتظامیہ کے اہلکاروں یا کسی بھی شہری کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہ کرسکے۔