ٹارگٹ اگر مشکل ہو تو اسے حاصل کرنے کا بھی مزا آتا ہے ۔ پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے کوہ پیماﺅںکو دیکھتے ہیں وہ کس قدر مشکل اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے چوٹی پر پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں۔کچھ کو منزل مل جاتی ہے اور کچھ راستے میںہی دم توڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں روایت شکن حکمرانی بہت مشکل کام ہے کیونکہ جب عادتیں خراب ہوجائیں وہ جلدی ٹھیک نہیں ہوتیں ۔ 70 سالوںسے جتنے بھی افراد منصب اقتدار پر فائز ہوئے ان تمام نے سٹیٹس کو کو توڑنے کی بجائے اسی انداز حکمرانی کو اپنالیا جو انگریز برصغیر پاک و ہند سے واپس جاتے ہوئے ورثے میں چھوڑ گئے تھے ۔ پاکستانی حکمران بھی آقا اور غلام کا سسٹم تبدیل کرنے کی بجائے ہر وہ کام کرتے رہے جس سے ان کے اقتدار کو دوام ملتا ہو۔ مجھے ایک ٹی وی رپورٹ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایوان صدر ‘ وزیراعظم ہاﺅس ‘ پارلیمنٹ ہاﺅس اور دیگر حکومتی اداروں کے صرف ایک دن کے اخراجات فی عمارت پچیس سے تیس لاکھ روپے بنتے ہیں ۔ جن کی آرائش و زیبائش اور ملازمین و افسران کی تنخواہوں اور مراعات پر سالانہ اربوں روپے قومی خزانے سے ادا ہوتے ہیں ۔ صدر ‘ وزیراعظم اور وزراءجب چاہیں اور جہاں چاہیں پورے پورے جہاز من پسند افراد سے بھرکر ملکوںکی سیر کو نکلتے اور یورپی ممالک کے مہنگے ترین ہوٹلوںمیں قیام پذیر ہوکر غریب قوم کے پیسوں سے عیاشی کرتے تھے ان کے ثبوت پاکستانی سفارت خانوں سے باآسانی مل سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے فرانس میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے سید یوسف رضاگیلانی کی بہن کے مہنگے ترین ہوٹل میں قیام کے اخراجات ادا کیے گئے تھے جبکہ ایک سابق وزیر اعلی پنجاب عارف نکئی 85 لاکھ کی گڑیا بیرون ملک سے قومی خزانے سے خرید لائے جس کا تذکرہ اخبارات میں ہوتا رہا ۔ یہ تو وہ باتیں ہیںجو میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتی رہیں وگرنہ بے شمار ایسے اخراجات بھی ہمارے سفارت خانے ‘ حکمرانوں کی چاپلوسی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں جن کی خبرکسی کو بھی کانوںکان نہیں ہوتی ۔ نواز شریف نے لندن میں اوپن ہارٹ سرجری کروائی اس دوران لندن میں اپنی قیام گاہ کو وزیر اعظم ہاﺅس ڈیکلر کرکے پی آئی اے کے بوئنگ جہاز کو ذاتی استعمال میں رکھا ۔ پروٹوکول کے نام پر نہ صرف حکمران بلکہ سابقین کو لامحدود سہولتیں حاصل رہی ہیں ۔زردای ‘ مشرف ‘ فضل الرحمان جیسے لوگ ہمیشہ سے مستفید ہوتے چلے آئے ہیں۔ صرف پروٹوکول پر اخراجات کا اندازہ بھی چالیس سے پچاس ارب سالانہ بنتا ہے ۔ حفاظتی اور خدمت گزاری پر مامور ملازمین کی تعداد بھی ہزاروںمیںہے ۔گورنر ہاﺅسز کی بات تو چھوڑیں کمشنر ‘ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر بھی کئی کئی ایکڑ پر مشتمل رہائش گاہوںمیں قیام پذیر ہیں۔جو انگریز دور کی یادگار بن کر آج بھی منہ چڑاتے ہیں۔جن کی آرائش اور سیکورٹی کے اخراجات بھی غریب قوم ادا کرتی ہے ۔سرکاری گاڑیوںکا پرائیویٹ استعمال تو اوپر سے نیچے تک ہر وہ شخص کرتا ہے جسے یہ سہولت حاصل ہے۔اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور اکرم درانی کے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات دیکھے جاسکتے ہیں ۔ بیگمات کی شاپنگ ‘ بچوںکو تعلیمی اداروںتک لے جانے اور واپس لانے کا فریضہ بھی سرکاری خزانے سے ہی ادا ہوتاہے ۔ گاڑی ‘ پٹرول ‘ ٹیلی فون کالز ‘ سوئی گیس اور بجلی کے لا محدود بلز کی ادائیگی بھی قومی خزانے پر بوجھ ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں اگر ایک شخص سرکاری افسر / وزیر یا مشیر بنتا ہے تو پورا خاندان قومی خزانے پر بوجھ ڈال دیتا ہے ۔ چونکہ کرپشن اور اقربا پروری کے اس حمام میں سب ننگے ہیں اس لیے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا۔لوٹ مار کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا جارہا ہے ۔ یہی نہیں پورے ملک میںافسروں کی تین سے چار قطاریں ہر عہدے اور ادارے میں لگی نظر آتی ہیں۔ ایک افسر حاضر سروس ‘دوسرا ویٹنگ پوزیشن ‘ تیسرا او ایس ڈی اور چوتھا تربیتی مراحل طے کررہا ہوتاہے ۔ حکومت بدلتی ہے تو او ایس ڈی عہدے سنبھال لیتے ہیں اور باقی بیورو کریسی کی تین قطاریں کچھ کیے بغیر قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات حاصل کرتی ہیں۔ جہاں قومی خزانے کی لوٹ مار کی بات ہوئی ہے وہاں افتتاحی تقریبات اور سنگ بنیاد رکھنے کا رواج اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں سرکاری تقریبات کا انعقاد بھی قابل ذکر ہے ۔کمالیہ پیپر ملز کاافتتاح کمالیہ میں ہواتھا وہ پراجیکٹ ضیاالحق کے ساتھ ہی دفن ہوگیالیکن افتتاحی تقریب پر 1988ءمیں جو چار کروڑ خرچ ہوئے تھے وہ مٹی کا ڈھیر بن گئے ۔ لاہور میں باب پاکستان کا منصوبہ دوسری مثال ہے جس کا افتتاح چار پانچ مرتبہ ہوچکاہے۔ ہر بار کروڑوں روپے تشہیر ‘ انتظامات اور خاطر تواضع پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں ۔ یہ پراجیکٹ آج بھی افتتاح کرنے والوں کا راستہ دیکھ رہا ا ہے ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عمران خان سادگی اور کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو سرکاری خزانے سے افتتاحی اور سنگ بنیاد رکھنے کی تقریبات کے ساتھ ساتھ فائیو سٹار ہوٹلوں میں سرکاری سیمینار /تقریبات کوبھی ختم کرنا ہوگا ۔اگر ایسا نہ کیاگیا تو اربوں روپے قومی خزانے سے بے دریغ خرچ کیے جاتے رہیںگے ۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں جس سادگی اور کفایت شعاری کا اعلان کیا وہ نہایت خوش آئند ہے لیکن عملی طور پر مشکل ٹارگٹ ہے ۔کیونکہ یہاں ایک کروڑ لگا کو دس کروڑ بنانے کے چکر میں ہر شخص نظر آتاہے ۔کسی کو غریب قوم کادرد محسوس نہیںہوتا۔اگر شاہ خرچی اور فضول اخراجات کو نہ روکا گیا تو سادگی اور کفایت شعاری کے تمام اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان کو اپنالیڈر ماننے والے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی ہو ں‘ سرکاری افسر ہوں ‘ عوام ہوں یا کوئی اور ۔ تمام کواپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے روز مرہ معمولات کو از سر نو ترتیب دیتے ہوئے ہر وہ راستہ اختیارکرنا ہوگا جو حقیقی معنوںمیں سادگی اورکفایت شعاری کاعملی ثبوت بنتا ہو۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ ہو یا وزیراعلی کا دفتر ‘ ہر جگہ افسروں اور ملازمین کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر ہوتی ہے ۔فائلیں ایک میز سے دوسرے میز تک پہنچنے میں کئی دن لگا دیتی ہیں اگر بیورو کریسی کا بوجھ بھی کم کردیا جائے تو قومی خزانے پر کسی حد تک بوجھ کم ہوسکتا ہے ۔ سرکاری ٹرانسپورٹ کو نجی مصروفیات کے لیے استعمال روکنا بے حد ضروری ہے ۔ بہرکیف عمران خان نے جس مشن امپوسیبل کا آغاز کیا ہے وہ بظاہر بہت مشکل ٹارگٹ دکھائی دیتا ہے اگر ارادہ مضبوط ہو تو مشکل سے مشکل ٹارگٹ کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے مضبوط ارادہ اور عمل صمیم کی ہر سطح پر ضرورت ہوتی ہے ۔قوم نیا پاکستان بننے پر بہت خوش ہے لیکن یہ نیا پاکستان تب عملی شکل اختیار کرسکے گا جب ہر پاکستانی اپنی ذمہ داریوںکا احساس کرتے ہوئے اپنے لیڈر کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔
مشن امپوسیبل
Aug 27, 2018