خطہ کی بدلتی صورتحال اور پاکستان کا کردار

Aug 27, 2019

لیاقت بلوچ

خطہ علاقائی اعتبار سے پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان ، ایران ، روس اور چین پر مشتمل ہے ۔ خطہ کے تمام ممالک میں مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب پر مشتمل انسان بستے ہیں ۔ خطہ کے تمام ممالک کا یہ مشترکہ مسئلہ ہے کہ وہ سیکورٹی ، امن و امان ، غربت ، بے روزگاری اور اندرونی سطح پر بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے شدت پسندی اور دہشتگردی کا شکار ہیں ۔ خطہ میں نسبتاً کم آبادی ، کم وسائل اور کمزور معیشت کی حامل ریاستیں علاقائی اور عالمی نام نہاد طاقتوں کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہیں ۔ چین اور بھارت کے درمیان بڑا ہونے کا جنون اور روس امریکہ کا اس خطہ پر بالادستی قائم کرنے کی پرانی خواہش مسائل کی بنیاد ہے اسی لیے خطہ طویل مدت سے بحرانوں ، استعماری قوتوں کے ایجنڈا کی تکمیل کی چراگاہ بناہواہے جس سے دو ارب انسان دہشتگردی ، شدت پسندی ، غربت ، بے روزگاری ، انسانی حقوق کی پامالی اور بیرونی مداخلت اور جارحیتوں کا شکار ہیں ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ خطہ ہر دس پندرہ سال کے بعد نئے امکانات کے دوراہے پر کھڑا ہوتاہے لیکن تمام مثبت امکانات کو ضائع کر دیا جاتاہے اور خطہ کی صورتحال پہلے سے زیادہ ابتر ہو جاتی ہے ۔
خطہ میں مسئلہ کشمیر پاکستا ن اور بھارت کے تعلقات میں تنازعات کا کور ایشو ہے ۔ انقلاب ایران کے بعد عالم اسلام تقسیم در تقسیم کا شکار کردیا گیا ۔ اہل ایمان کلمہ گو باہم دست و گریبان ہیں جس کا تمام تر فائدہ عالمی استعماری قوتوں کو ہی ہورہاہے جس نے عملاً مسلم معاشروں کو فرقہ واریت ، تکفیریت ، شدت پسندی اور عدم برداشت کا شکار کردیا ہے ۔ یہ سازشیں کشمیر ، فلسطین اور افغانستان کو میدان جنگ بنائے رکھ کر اپنے شیطانی عزائم کی پیش رفت کے لیے آلہ کار بنائے رکھنے کی ہیں ۔ اس وقت دہشتگردی ، شدت پسندی ، انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے خطہ کے انسان بری طرح خط غربت سے نیچے ہی گرتے جارہے ہیں ۔ عملاً خطہ عالمی ہٹ دھرمی اور جارحیت کا شکار ہے ۔ افغانستان میں امن و استحکام خطہ کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے لیکن افغان امن مذاکرات کو تکمیل کی طرف نہیں بڑھایا جارہا۔نریندر مودی اور حسینہ واجد شیخ جیسی قیادت خطہ کی تباہی کا مزید باعث بنی ہوئی ہیں ۔دونوں کا مشترکہ ہدف پاکستان جو ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے ، اسے ناکام ریاست بنانا، نیز ایران اور پاکستان کو تنہا کرنا ہے ۔امریکہ ، بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ افغانستان کے راستے خطہ کو زیر رکھنے کے عزائم اور پاکستان ایران کو تعصبات کی آگ میں جھونکے رکھنا خاص مقاصد اور دونوں ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کرنا نیز خطہ میں اسلامی ممالک کو ترقی ، استحکام اور اسلامی نظام کے قیام کو روکنا ہدف ہے ۔
خطہ میں پاک چین اقتصادی راہداری اہم ترین منصوبہ ہے ۔ چین بحری اور زمینی راستوں سے ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے اقتصادی ترقی کا وسیع پروگرام رکھتاہے یہ انسان دوستی ، انسانوں کے معاشی مسائل کے حل کا اہم ذریعہ بن سکتاہے لیکن اس منصوبہ کو روکنا امریکہ کا بڑا ہدف ہے ان مقاصد کے لیے بھارت امریکہ کا آلہ کار بناہے ۔ بھارت کا پرائم ہدف اپنی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ہے ۔ امریکہ خطہ کی سیاست میں دوہرے معیارات کا مظاہرہ کر رہاہے ۔انڈیا کو سول نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کی سہولت اور پاکستان کو محروم رکھنا ، شمالی کوریا سے نیوکلیئر معاہدہ کرنا جبکہ ایران سے معاہدہ کر کے توڑنا ، ایران کے خلاف امریکی بیانیہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو کشیدہ تر بنائے رکھنا دوہرے معیارات کا شاخسانہ ہے ۔ یہ عالم اسلام کے امن کے لیے مستقل خطرہ ہے یہ مرحلہ بہت اہم ہے کہ امریکہ ، طالبان اور کابل میں افغان قیادت کے مذاکرات کا میاب ہوں ، افغان عوام کو امن مل جائے اور خطہ میں استحکام آئے ۔ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور مذاکرات کی کامیابی سے مسئلہ کشمیر ، فلسطین کا حل نکلے گا لیکن بھارت اور اسرائیل اس میں رکاوٹ ہیں ۔ مذاکرات کی ناکامی یا بھارت و اسرائیل کی شرائط کو تسلیم کرانا ان کا ہدف ہے ۔
خطہ کے ان حالات میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے ۔ اندرونی سیاسی اور اقتصادی استحکام میں پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرانے کا باعث ہوسکتاہے ۔ پارلیمنٹ اور قومی قیادت اپنے اندر اہلیت اور ادراک پیدا کرے کہ عالمی حالات میں فیصلہ کن مرحلہ پر قومی حکمت عملی ترتیب دیں وگرنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔ دوبارہ مسائل ، پریشانیوں اور ذلت سے دوچار ہوں گے ، ان حالات میں پاکستان کے کردار کے لیے اہم نکات اور ذرائع یہ ممکن ہیں :
٭۔ملک کے اندر قومی ایکشن پلان کا بلاامتیاز نفاذ ناگزیر ہے ۔ مساجد ، مدارس اور منبر و محراب کو ٹارگٹ بنانا ترک کیا جائے ۔ اصلاح اور نظم و ضبط ہر شعبہ ہائے زندگی میں ضروری ہے ۔ غربت ، بے روزگاری کے خاتمہ ، صنعتی ترقی کے لیے سی پیک منصوبہ کا تحفظ اور منصفانہ نفاذ کیا جائے ۔
٭۔اتحاد امت کے لیے کردار اد کرنا از حد ضروری ہے ۔ اسلامی اخوت اور باہمی احترام کے اصولوں کی بنیاد عالم اسلام کا اکٹھا ہونا ناگزیر ہے ۔ امت میں اتحاد کے ذریعے ہی اہم اور طویل مدت سے حل طلب مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
٭۔سعودی عرب ،ایران کے درمیان تعلقات کی کشیدگی براہ راست پاکستان کو متاثر کر رہی ہے ۔ ترکی کے ساتھ مل کر کشیدہ تعلقات کو دوستی میں بدلا جائے ۔ افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ایران و سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری صرف پاکستان نہیں خطہ کے لیے بھی ضروری ہے ۔ پاکستان خارجہ حکمت عملی میں اتحاد امت کو ترجیح اول بنائے ۔
٭۔عالم اسلام کے تمام ممالک کے درمیان سفارتی رابطوں ، ڈائیلاگ کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ تعلقات کار کے رہنما اصول ، روڈ میپ بنایا جائے تاکہ تمام مسلم ممالک خصوصاً مڈل ایسٹ میں امن خطہ کے لیے بہت اہم ہے ۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کی فورسز اس خطہ کا حصہ نہیں، ان کی فوجی موجودگی ختم ہونی چاہیے ۔
٭۔پاکستان کی خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائد اعظم اور آئین پاکستان کی روشنی میں بنائی جائے ۔ پاکستان عدم مداخلت کے ساتھ مسلم ممالک میں تعلقات کار کی بہتری کے لیے مثبت سفارتی کردار ادا کرے ۔ سفارت خانوں کو اتحاد امت کا مشن سپرد کیا جائے ۔ پاکستان از سر نو مسلم ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منظم کرنے کی کوششیں کرے جس میں مسلم ممالک کے اختلافات دور کرنے کا روڈ میپ طے ہو ۔ (جاری)

مزیدخبریں