مودی سرکار کی سفاکیت،مظاہروں کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے ڈیٹھ سرٹیفکیٹس جاری کرنے سے انکار

مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے سفاکیت اور بے حسی کی انتہا کرتے ہوئے گزشتہ 23 دنوں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے ڈیٹھ سرٹیفکیٹس جاری کرنے سے انکار کردیا تاکہ کشمیر میں ہونے والے قتل عام کے ثبوت دنیا کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے میں شائع کی گئی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ایک تحقیقی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں، قابض بھارتی فوج نے وادی کے تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو مظاہروں کے دوران شہید ہونے والوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے اور زخمیوں کو طبی امداد دے کر فوراً رخصت دینے کی سخت ہدایات دی ہیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے غیر آئینی فیصلے کے بعد کشمیری کرفیو توڑ کر سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں، قابض بھارتی فوج نے نہتے شہریوں پر براہ راست برسائیں جس کے نتیجے میں درجنوں شہادتیں ہوئیں اور متعدد زخمی ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے سے منسلک صحافی نے درجن سے زائد اسپتالوں کا بھی دورہ کیا، اسپتال انتظامیہ نے صحافی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے زخمی مظاہرین کو طبی امداد کے بعد فوری طور پر اسپتال سے رخصت دینے، زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ نہ رکھنے  اور جھڑپوں میں شہید ہونے والوں کو ڈیتھ سرٹیفیکٹس جاری نہ کرنے کی زبانی ہدایات دی ہیں۔

صحافی نے سری نگر میں 17 اگست کو شہید ہونے والے 55 سالہ کشمیری ایوب خان کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی جنہوں نے صحافی کو بتایا کہ مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے نے ایوب خان نے اسپتال پہنچتے ہی جام شہادت نوش کرلیا تاہم اسپتال انتظامیہ نے ڈیتھ سرٹیفیکٹ جاری کرنے سے انکار کردیا۔

رپورٹ میں جھڑپوں کے دوران جاں بحق ہونے والے 3 افراد سے متعلق تفصیلات شامل ہیں جن کے اہلِ خانہ کو ڈاکٹروں کو باضابطہ طور پر جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں سے آگاہ کرنے اور ڈیتھ سرٹیفکیٹس کے حصول میں مشکلات سے آگاہ کیا۔

اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ جھڑپوں میں جاں بحق افراد میں 55 سالہ ایوب خان بھی شامل تھے جو اپنے خاندان کے سرپرست تھے اور ان کی 3 بیٹیاں ہیں۔

ایوب خان 17 اگست کو سری نگر کے علاقے یاری پورہ میں بھارتی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں جاں بحق ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ایوب خان کے 60 سالہ دوست فیاض احمد خان نے کہا کہ ’ جب بھارتی فورسز نے آنسو گیس کے کنستر برسائے ہم دونوں ساتھ کھڑے تھے، ان میں سے کچھ کنستر ایوب خان کی ٹانگوں پر آکر گرے اور ان کا دم گھٹنا شروع ہوگیا‘۔

فیاض احمد خان نے کہا کہ ’ ایوب خان کو فوری طور پر شری مہاراجہ ہری ہسپتال ( ایس ایم ایچ ایس) لے جایا گیا تھا‘۔

ایوب خان کے بھائی شبیر نے کہا کہ ’ جب ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان (ایوب خان) کا انتقال ہوچکا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ ہم نے ریکارڈ میں موت کی وجہ آنسو گیس درج کرنے کا کہا لیکن ڈاکٹر نے انکار کردیا‘۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے ایوب خان کے انتقال پر عوام کی جانب سے احتجاج کے خدشے کے باعث ان کے اہلِ خانہ کو تدفین میں شریک افراد کی تعداد 10 تک محدود کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایوب خان کے بھائی شبیر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد جب ایمبولینس میں میت گھر لائے تو اس دوران زخمی ہوئے اور سیکیورٹی فورسز نے ان کے گھر میں جمع دیگر افراد کو منتشر کرنے کے لیے پیلیٹ گنز برسائیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایوب خان کے اہلِ خانہ نے چند روز پر ہسپتال حکام سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کہا جس پر ڈاکٹرز نے بتایا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے انہیں واقعے کی ایف آئی آر لازمی جمع کروانی ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں ایف آئی آر درج کروانا ناممکن ہے۔

شبیر نے بتایا کہ ’ یہ واضح ہے کہ پولیس کے خلاف کسی کیس میں ہسپتال حکام موت کی اصل وجہ نہیں درج کریں گے، یہ ناانصافی ہے، ہم جاں بحق افراد کی تعداد رجسٹر کروانے میں ناکام ہیں، ہم بے بس ہیں‘۔

دوسری جانب سری نگر میں موجود پولیس حکام نے کہا کہ وہ ہلاکتوں کے اصل اعداد و شمار دینے میں ناکام ہیں لیکن وہ دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں تاحال کرفیو نافذ ہے، نیٹ، موبائل، ٹیلی فون  اور ٹی وی سروس بند ہونے کے باعث وادی کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے تاہم بہادر کشمیری کسی نہ کسی طرح احتجاج کے لیے نکل کر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ 

 
 

ای پیپر دی نیشن