حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ

عظیم صوفی بزرگ حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کے778ویں سالانہ عرس کی15روزہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس بر گزیدہ بندے کا نام حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر ؒ تھا ’’نور العارفین بابا فرید الدین مسعود گنج شکر  ؒ‘‘ کا عہد572 ہجری سے 665 ہجری تک بنتا ہے آپ کا عرصہ حیات تقریباً 93 برس پر محیط ہے بابا فریدالدین ؒ کے بے شمار خلفائے تھے ، جو کا ملین میں شمار ہوتے ہیں میں مختصر نام قلمبند کروں گا ، تاکہ قارئین جان سکیں ۔ حضرت شیخ علائو الدین علی احمد صابرؒ ، حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ، شیخ شمس الدین ترک پانی پتیؒ ، شیخ جمال الدین ہانسوی ؒ ، شیخ یعقوب ابن بابا فرید ؒ شیخ بدر الدین ؒ ، شیخ نجیب الدین متوکل ؒ شیخ عارف سیو ستانی ؒ اور بہت سے ان گنت خلفائے تھے جہنوں نے دُنیا ئے تصوف میں نام پید اکیا اور دین اسلام کو فروغ دیا۔بابا فرید گنج شکرؒ نے اپنے کردار و عمل اور تعلیمات سے برصغیر میں اسلام کا بول بالا کیااولیائے کرام کا بنیادی فریضہ قلوب کی اصلاح ہے اور بابا فرید نے ہزاروں سینوں میں اسلام کی شمع روشن کی اور یہی وجہ ہے کہ آج پونے آٹھ سو سال کے بعد بھی حضرت بابا فرید ؒ کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ اسلام کا تمام تر کام اولیاء کرام اور بزرگان دین کے ہاتھوں انجام پایا اور یقینا یہ تاریخ عالم کی بہت اہم مثالوں میں سے ایک ہے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ بھی اللہ کے ان پیارے بندوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی اللہ کی رضا کے حصول کیلئے وقف کر دی وہ نہ صرف اپنے دور کے عظیم صوفی ،عالم اور مبلغ ہیں بلکہ انہیں پنجابی شاعری کے بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے بابا فرید کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اکثر شعر جنہیں اشلوک کہاجاتا ہے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر یا احادیث کے تراجم ہیں اور یہ ان کی شاعری ہی تھی جسے انہوں نے تبلیغ اسلام کیلئے استعمال کیا بابا فریدؒ کی شاعری کے حوالے سے سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ ان کا کلام محفوظ نہیں رہ سکا ان کے صرف وہ اشعار یااشلوک آج ہم تک پہنچے ہیں جو سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے سکھوں کی مذہبی کتاب ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘میں تحریر کروا دئیے تھے اب ہمارے پاس اس کلام کے علاوہ بابا فریدؒ کی کوئی شاعری موجود نہیں ان کے شعر جنہیں شلوک یا اشلوک کہا جاتا ہے ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی، ہجر و فراق کی کیفیت قرآن مجید کی سچی تعلیم اور اخلاقی قدروں کی پہچان کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں جیسے کہ انہوں نے فرمایا کہ
رُکھی  سُکھی  کھاء  کے  ٹھنڈا  پانی  پی
دیکھ  پرائی  چوپڑی  نہ  ترسائیں  جی
ترجمہ: اے فرید!تجھے جو روکھی سوکھی روٹی میسر آتی ہے اسے کھا اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر گزاراکر تجھے دوسروں کی چپڑی روٹی دیکھ کر اپنے جی کو نہیں ترسانا چاہئیے تو اس روکھی سوکھی پر قناعت کرے گا تو ساری عمر سکھی رہے گا اور دوسروں کی طرف دیکھ کر چپڑی روٹیوں کا لالچ کرے گا تو یہ لالچ تجھے ساری زندگی دکھی رکھے گی۔
فریدا  خاک  نہ  نندئیے  خاکو  جیڈ  نہ   کوئی
جیو  ندیاں  پیراں  تلے  ، مویاں  اُپر  ہوئی
ترجمہ: اے فرید! مٹی کو برا نہیں کہنا چاہئے اس دنیا میں مٹی جیسی اور کوئی چیز نہیں یہ اسی مٹی کا وصف ہے کہ انسان کے جیتے جی وہ اس کے پیروں تلے ہوتی ہے مگر مسلسل پامالی ہونے کے باوجود کوئی شکایت نہیں کرتی اور جب انسان مر جاتا ہے تو یہی مٹی اس کے اوپر آکر اس کی قبر میں اس کے حال کی پردہ پوشی کر لیتی ہے ۔یعنی کہ ایک شعر میں کتنی بڑی حقیقت آشکارہ کی گئی ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے۔ بابا فریدؒ لوگوں کو دینی تعلیم وتبلیغ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اشلوکوں (شاعری) میں اس زمانے کے عام لوگوں کی زندگی محفوظ کررہے تھے۔
فرید اروٹی میری کاٹھ دی لاون میری بُکھ
جھناں کھاہدی چو پڑی گھنے سہن گے دُکھ
اب بابا فرید ؒ کے کلام کو اس وقت کے لوگوں کی زندگی کے پس منظر میں دیکھیں تو " روٹی میری کاٹھ دی" رمز ہے۔ نچلے طبقے کے حالات کی جونہایت مشکل سے ، سخت محنت ومشقت سے کمائی گئی روٹی بھوک کے سالن کے ساتھ کھاتے ہیں ۔ اگر یہ بات بابا فریدؒ کی زندگی سے متعلق لکھی جانے والی پہلی کتاب سیر الاولیاء میں حضرت نظام الدین اولیاء نے نہ کہ ہوتی تو پھر" کاٹھ کی روٹی " کامطلب صرف وہی روٹی رہ جاتی جسے محکمہ اوقاف نے بابا فریدؒ کی ذات سے منسوب کرکے ایک فریم میں سجا کر رکھاہوا ہے اور یہ مشہور کر رکھا ہے کہ بابا جی نے اس روٹی کو گلے میں لٹکا رکھا تھا، جب بھوک لگتی تو اسے چبا لیتے تھے اور یہ بات ایک ایسے عظیم المرتبت بزرگ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ کے بارے میں مشہو ر کی گئی ، جنہوں نے کہا کہ روٹی دین کا چھٹار کن ہے۔ اس اشلوک میں صر ف " کاٹھ کی روٹی" ہی رمز نہیں بلکہ" چوپڑی" بھی ایک رمز ہے۔’’ چوپڑی‘‘یعنی گھی سے چُپڑی ہوئی روٹی ، اشارہ ہے اس طبقے کی طرف جو دوسروں کی محنت کارس چوس کر اپنی زندگی میں آسائشیں پیدا کرتے ہیں ۔ ایک طبقے کی چُپڑی ہوئی روٹی یعنی عیش وعشرت دوسرے طبقے کی " کاٹھ کی روٹی" یعنی غربت سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس اشلوک کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر اپنی زندگی کو پُر آسائش کئے پھرتے ہیں وہ آگے جا کر بہت دُکھ اُٹھائیں گے ۔ مراعات یافتہ طبقے کو زیادہ دُکھ اُٹھانے کی طرف اشار ہ کرکے بابا فریدؒ نے خود کو غربت کی زندگی بسر کرنے والے طبقے کا ہمدرد قرار دیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابا فریدؒ نے عربی ، فارسی کے عالم ہونے کے باوجود اپنی شاعری کیلئے عام لوگوں کی زبان " پنجابی"کو ذریعہ اظہار بنایا۔

ای پیپر دی نیشن