ایران کو قبول کر کے چین کا دو قطبی دنیا کی تشکیل کا اعلان

Aug 27, 2020

سہیل عبدالناصر
  عالمی اور علاقائی سطحوں پر تاریخ کروٹ بدل رہی ہے۔ انہونیاں رونما ہو رہی ہیں لیکن   ملک کے اندر انہونی ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔سیاسی میدان میں حکومت اور اپوزیشن لنگر لنگوٹ کس کر ، ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ رہی۔دائو پیچ آزمانے اور پشت لگانے کی نوبت نہیںآ رہی۔پہلے مریم نواز متحرک ہوئیں۔عمران خان حکومت کی دو سالہ مدت مکمل ہوئی اور  اس موقع پر ایک دوسرے کو خوب رگیدا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے   نواز شریف کو لندن سے واپس لانے کی ہدایات جاری کیں ،منگل کے روز وفاقی کابینہ نے اقدامات کی منظوری بھی دے دی ہے ۔ 
 بے خانماں افغانوں کے ہاتھوں، اٹھارہ سالہ سبکی کے بعد، امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے۔چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پاکستان پر جن طالبان کی خفیہ سرپرستی کا الزام عائد کیا جاتا تھا  انہی طالبان کا وفد  ملا عبدالغنی برادر کی زیر سرکردگی، پچیس اگست کو دفتر خارجہ میں پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے۔ اس سے پہلے  متحدہ عرب امارات نے  اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے ۔ متعدد عرب ملک ، امارات کی پیروی کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال  نے مشرق وسطیٰ میں بھونچال پیدا کر دیا ہے جس کے  جھٹکے پاکستان کے اندر بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی انتہائی مخدوش صورتحال پر رنجیدہ ہو کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے  ایسا بیان دیا ہے جس نے پاک سعودی عرب تعلقات پر مباحثوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ انہی امور کو نمٹانے کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر  ان اطلاعات کی گرد اٹھی کہ سعودی عرب نے پاکستان سے پیسے بھی واپس مانگ لئے ہیں اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی بھی روک دی لیکن دورہ چین سے واپسی پر شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میںوضاحت کر دی کہ یہ اطلاعات محض مفروضہ اور قیاس آرائی ہیں۔  اس سے پہلے یہ واقعہ رونماء ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ستائے ہوئے   ایران کو قبول کر کے چین نے دو قطبی دنیا کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے۔کبھی  سابق سوویت یونین ، ایسے ملکوں کو تحفط فراہم کرتا تھا اب چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ معیشت، سیاست، سفارت اور عسکری شعبوں میں ، ملکوں اور خطوں کو امریکہ کی دست برد سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ 
 متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانا ، قطعی اچنبھے کی بات نہیں۔ متعدد عرب ملکوں اور ایران کے دھائیوں سے ، اسرائیل کے ساتھ  خفیہ تعلقات رہے ہیں۔ شنید ہے کہ اب بحرین، سوڈان اورمتعدد افریقی عرب ملک  اسرائیل کے ساتھ رشتہ سفارت میں منسلک ہو جائیں گے۔سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان ہوتے ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی اتنی گاڑھی چھننے لگی ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس چیف  نے امارات کا دورہ بھی کر لیا اور دونوں ملکوں نے کورونا کی  ویکسین   کی مشترکہ تحقیقات بھی  اعلان کر دیا گیا ہے۔ امارات کے اس اقدام نے جہاں دنیا بھر اور بطور خاص مشرق وسطیٰ میں  ہر سطح پر بحث چھیڑ دی ہے وہاں پاکستان بھی اس پلیٹ سے محفوظ نہیں رہا ۔ پاکستان نے سفارتی طور پر کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔  پاکستان کی کم و بیش تمام نمایاں سیاسی جماعتوں نے  اس معاملہ پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔دفترخارجہ نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک محتاط بیان جاری کیا ۔ برسوں پاکستان کا سرکاری اعلانیہ موقف یہ ہے کہ پاکستان ، مسئلہ فلسطین کے ایسے  دو ریاستی  حل کا حامی ہے جس میں بیت المقدس، ریاست فلسطین کا دارلحکومت ہو۔ یعنی پاکستان  مشروط طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے۔ دلچسب  امر یہ ہے کہ پاکستان کی  سرد مہری کے برعکس، اسرائیل ہمیشہ اور ہر  دور میں پاکستان کے ساتھ  تعلقات رکھنے کے بارے میں ہمیشہ پرجوشش کوششیں کرتا رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ  جنرل قمر جاوید باجوہ کے  دورہ سعودی ورب کے نتیجے میں  باہمی تعلقات پر چھائی  بدگمانیوں کی دھند چھٹ جائے گی۔پاکستان کے عوام اور ریاست کو حرمین شریفین کے باعث  سعودی عرب سے خاص عقیدت ہے۔ اس سے ہٹ کر دونوں ملک خاصی حد تک  ضرورتوں کی وجہ سے بھی تعلق دار ہیں۔ سلامتی اور دفاع کیلئے سعودی عرب پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے جب کہ مشکل معاشی صورتحال  میں سعودی عرب ، کسی حد تک پاکستان کے کام آتا ہے ۔
 اٹھارہ اگست کو تحریک انصاف کی حکومت نے دو برس کی مدت مکمل کر لی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان  اپنی دو سالہ کارکردگی پے بے حد خوش ہیں۔اسد عمر نے  دعویٰ کیا کہ  کپتان سنبھل چکے ہیں اور طویل اننگ  کھیلنے کیلئے  تیا رہیں۔

مزیدخبریں