کابل(این این آئی، اے پی پی) ملک چھوڑنے کے خواہشمند رواں ماہ اگست کے آخر میں امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کی ڈیڈ لائن مقرر ہے اورامریکی صدر جوبائیڈن مقررہ تاریخ تک افغانستان سے انخلاکے اعلان پرقائم ہیں جس سے ہزاروں افغانیوں کو بیرون ملک منتقل نہ کیے جانے پر امریکی خفیہ اداروں بالخصوص سی آئی اے میں مایوسی اور ناراضگی پائی جا رہی ہے۔امریکی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اہلکارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لوگ ناراض اور بیزار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب میں سوچتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے افغانی جوہمارے ساتھ رہے پیچھے رہ گئے ہیں تو میرے ہوش اڑ جاتے ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ ان کا مستقبل کیا گیا اور وہ زندگی کیسے جئیں گے۔داخلی سلامتی کے دو سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے حکام وزارت خارجہ پر برہم ہیں۔ کیونکہ وزارت خارجہ نے امیگریشن ویزا کے خصوصی درخواست گزاروں کے لیے جانچ کے عمل میں کوئی تیزی نہیں دکھائی۔داخلی سلامتی کے عہدیداروں نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے ہم عہدیداروں نے جلد کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ افغان صدر اشرف غنی کے جانے سے پہلے بڑے پیمانے پر انخلا شروع کرنے سے گریزاں تھے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر لوگوں کی زیادہ تعداد کو بیرون ملک نکالا جاتا تو یہ افغان قیادت پرعدم اعتماد کا اظہار ہوتا۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی شہریوں کی تعداد اندازا 6000 تھی جن میں سے 4500 کا انخلا ہو چکا ہیجبکہ 1500 شہریوں کو وہاں سے نکالنا ابھی باقی ہے،ان کا کہنا تھا کہ 500 امریکی شہریوں سے پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران رابطہ کیا جا چکا ہیاور انہیں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ ایئرپورٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق انخلا سے متعلق خصوصی پریس بریفنگ کے دوران اینٹونی بلنکن نے واضح کیا کہ گرین کارڈ ہولڈر انخلا کے زمرے میں نہیں آتیاور امریکی شہری وہ افراد ہیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ موجود ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ایئرپورٹ پر موجود امریکی حکام طالبان سے رابطہ کرتے رہتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس قانونی دستاویز موجود ہیں انھیں ایئرپورٹ تک آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔