اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ کسی طرح فوج حکومت کو گرا دے، مافیا نے ہماری فوج کے خلاف تقریریں کیں۔ مشکلات سے نمٹنے میں خاص طور پر پاک فوج کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حکومت میں آئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکانٹ خسارہ ورثے میں ملا جو کم ہوکر صرف ایک ارب 8 کروڑ ڈالر تک آگیا۔ اگلے دس برس میں10 ڈیم بنانے جارہے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر کارکردگی کے حوالے سے اسلام آباد کے جناح کنونشن سنٹر میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اور کہا کہ میری اقتدار میں آنے سے قبل 22سالہ جدوجہد بہت سخت تھی۔ ایسے وقت بھی آئے جب صرف پانچ سے چھ لوگ ساتھ رہ گئے تھے اور اس برے وقت میں کئی لوگ مذاق اڑاتے تھے، میرے کئی لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ تم تحریک انصاف میں ہو۔ عمران خان نے کہا کہ میرے لیے ان مشکل دنوں میں سب سے بڑی تحریک نبی اکرمﷺ تھے، انہوں نے بھی بہت مشکل وقت گزارا، اللہ کے سب سے محبوب تھے لیکن 13سال وہ انتہائی مشکل وقت سے گزرے، انہیں اس مشکل وقت سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن جب وہ راہ حق پر آئے تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا میں ہمیشہ ان کی زندگی سے سیکھتا تھا۔ مشکل وقت میں ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ دنیا میں آج تک کسی نے بڑا کام نہیں کیا جو فیل نہیں ہوا، یہ ناممکن ہے آپ سیدھا پرچی پکڑ کر لیڈر بن جائیں۔ جب تک آپ مشکل جدوجہد سے نہیں گزرتے، اس وقت تک آپ بڑا کام نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی شارٹ کٹ لے کر لیڈر نہیں بنا۔ ہمارے تین سال بہت مشکل گزرے کیونکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ ملک کا دیوالیہ کر کے چلے گئے، کیونکہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ہی نہیں تھے۔ اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ہماری مدد نہ کرتے تو ہماری قوم جس مشکل وقت سے گزری وہ کچھ بھی نہیں کیونکہ روپیہ بہت بری طرح نیچے آتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا پیسے لینے کے لیے انہوں نے شرائط عائد کردیں کہ بجلی مہنگی کرنی پڑے گی، روپے کی قدر گرانی پڑے گی، ٹیکس لگانے پڑیں گے اور جب ہم ان شرائط پر چلتے ہیں تو عوام کو مشکلات ہوتی ہیں۔ ہم ان مشکلات سے نکل ہی رہے تھے کہ کرونا آ گیا، کرونا سے پہلے پلوامہ آ گیا لیکن اس معاملے میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی اور میں خاص طور پر فوج کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے فوج اور فضائیہ ہے۔ جس وقت بھارت نے ہمارے ملک میں رات گئے آ کر بمباری کی تو مجھے احساس ہوا کہ اگر ہمارے پاس اس طرح کی فوج نہ ہو تو ہم سات گنا زیادہ بڑے ملک کے سامنے کیا کرتے، ایسے میں ہمیں اپنی فوج کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔اس موقع پر انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب فوج کے خلاف بیانات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں میں نے بھی فوج پر تنقید کی ہے، کوئی بھی ادارہ غلطیاں کر سکتا ہے، عدلیہ، فوج اور ہم سیاستدان بھی غلطیاں کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ آپ اپنی فوج کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور ان کے پیچھے پڑ جائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ فوج کے پیچھے اس لیے پڑے ہیں کیونکہ آپ چاہ رہے ہیں کہ فوج کسی طرح حکومت گرادے، اپوزیشن والے خود کو جمہوری قوت کہتے ہیں ار فوج کے پیچھے پڑے ہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب پلوامہ ہوا تو مجھے اپنی فوج کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور اسی لیے ہم نے نریندر مودی کو کہا کہ اگر تم نے کچھ کیا تو ہم تمہیں منہ توڑ جواب دیں گے۔ کرونا کے دوران 30 سے 40 گنا بڑی جی ڈی پی کے حامل یورپی ممالک نے لاک ڈان کردیا اور پھر بھارت میں نریندر مودی نے بھی لاک ڈان لگا دیا کیونکہ یہ درست ہے کہ لاک ڈائون سے وبا پھیلتی کم ہے۔ہمیں اس موقع پر ان لوگوں کا سوچنا تھا جو یومیہ کماتے تھے اور ہماری اپوزیشن جماعتوں نے تنقید شروع کردی جبکہ ہسپتال بھرنے پر ہماری جماعت کے بھی کچھ لوگ گھبرا گئے لیکن ہم نے مشکل فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم پورا لاک ڈاؤن نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے غریب بھوکے مر جائیں گیاس کی برکت سے اللہ نے ہمیں بچا لیا۔ ہم غلط فیصلہ کر لیتے تو یہاں لوگ بھوکے مرتے جو آج ہندوستان میں ہو رہا ہے۔وزیر اعظم نے نے کہا کہ جب ہم آئے تھے تو ہمارے غیرملکی زرمبادلہ کے کل ذخائر 16.4 ارب ڈالر تھے اور آج ہمارے 27ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہم آئے تو 3ہزار 800ارب ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا اور آج 4ہزار 700 ارب ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہوں، یہ جو اعدادوشمار میں آپ کو بتا رہا ہوں وہ اسحاق ڈار کے نہیں بلکہ اصل ہیں۔ ہماری ترسیلات زر 29.4ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہیں۔ صنعت میں 18فیصد سے زائد اضافہ ہوا سیمنٹ کی 42فیصد فروخت بڑھی ہے، زراعت میں 1100ارب اضافی کسانوں کے پاس گیا ہے۔ ہماری موٹر سائیکلیں ریکارڈ تعداد میں بکیں، ریکارڈ ٹریکٹر فروخت ہوئے جبکہ گاڑیوں کی فروخت 85فیصد بڑھ گئی اور ٹویوٹا نے اپنی تاریخ میں اتنی گاڑیاں نہیں فروخت کیں جتنی آج بیچی ہیں۔ پنجاب کی اینٹی کرپشن نے مسلم لیگ ن کے 10سالوں میں کل ڈھائی ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے تین سالوں میں اسی ادارے نے ساڑھے چار سو ارب روپے برآمد کر چکے ہیں، ہمارے آن یسے پہلے نیب نے 18سالوں میں 290ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے 3سالوں میں 519 ارب روپے برآمد کر چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ غریب ممالک سے ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر روپے چوری ہوکر آف شور اکائونٹس میں منتقل ہوتے ہیں، ملک تب تباہ ہوتا ہے جب اس کے وزیراعظم اور وزیر چوری شروع کردیتے ہیں، مہمند ڈیم 2025 تک مکمل ہوجائے گا، تعلیم کے شعبے میں انقلابی قدم اٹھایا، تعلیم میں ہم ایک نصاب لے کر آئے یہ ہمارے لیے ایک مشکل ترین کام تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں امریکا نے 480 ڈرون حملے کیے، ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا پاکستانی حکومت سے اس کا بدلہ لیتے تھے، امریکا ہمارا اتحادی ہوکر ہمارے اوپر ہی بمباری کرتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ کو افغانستان میں صرف عورتوں کی فکر ہے۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، نامہ نگار) پاکستان تحریک انصاف حکوت کے تین سال مکمل ہونے پر اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب میں وزیراعظم ، وفاقی وزرائ، پی ٹی آئی رہنمائوں آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم نے شرکت کی۔ تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل نے پارٹی ترانہ گایا۔ گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ تقریب میں موجود کارکن جھوم اٹھے۔ گلوکار ابرارالحق نے بھی نغمہ گایا اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ موجودہ حکومت نے تین سال میں عوام کو سستی بجلی کی فراہمی، گردشی قرضے کے خاتمہ، لائن لاسز اور بجلی چوری کی روک تھام، واجبات کی وصولی، بجلی کے ترسیلی نظام کی بہتری اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 24200 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن جیسے منصوبوں سے بجلی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔ 60 سال کے بعد دیامر بھاشا، مہمند ڈیم اور داسو ڈیم جیسے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کا عملی آغاز کیا گیا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذریعے 2030 تک انرجی مکس کو بہتر بنایا جائے گا۔ موثر اقدامات کے ذریعے گردشی قرضے میں اضافہ رک گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر جمعرات کو جاری کارکردگی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت جب برسر اقتدار آئی تو توانائی کے شعبے کو تیزی سے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے، بدعنوانی، بجلی چوری، قیمتوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتمادکی بحالی کے لیے پالیسی فیصلہ سازی میں کمی جیسے کثیرالجہتی چیلنجوں کا سامنا تھا۔ حکومت نے 2030 تک سب کو مناسب قیمت پر سستی، قابل اعتماد، پائیدار اور مقامی سطح پر تیار کردہ بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے اہداف مقرر کیے تاکہ بجلی کی پیداوار ترسیل اور تقسیم کا ایسا فعال نظام قائم کیا جائے جس میں صارفین کو مرکزی اہمیت حاصل ہو۔ اس سلسلے میں تھرکول کے 6 منصوبوں سے 4290 میگاواٹ، 14 پن بجلی منصوبوں سے 6175 میگاواٹ، درآمدی کوئلہ کے ایک منصوبہ سے 300 میگاواٹ، آرایل این جی کے ایک منصوبہ سے 1263 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جبکہ بجلی کی ترسیلی لائن منصوبہ مٹیاری لاہور کے ذریعے 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل کی جائے گی اور یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 24 منصوبوں سے 1233.37 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ شمسی توانائی کے 6 منصوبوں کے ذریعے 430 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ جولائی 2020 سے 28 جون 2021 کے دوران نیسپاک نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے مکمل کئے۔ ان منصوبوں میں وزیرستان میں متعدد منصوبوں کے ساتھ ساتھ سی پیک کے تحت حویلیاں تھاکوٹ سیکشن، نیو لاہور سب سٹیشن اور ایسوسی ایٹڈ ٹرانسمیشن لائن اوردیگرمنصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے 60 سال کے بعد پہلی مرتبہ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کا عملی آغاز کیا گیا ہے جن میں 4500 میگاواٹ کس دیامر بھاشا ڈیم، 800 میگاواٹ کا مہمند ڈیم اور 4320 میگاواٹ کا داسو ڈیم شامل ہیں۔سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت سابق فاٹا میں مستقل تعمیرنو کا آغاز کیا گیا ہے۔موجودہ حکومت کے دور میں بجلی چوری کی روک تھام کے لیے وزیراعظم کی ہدایت پر اکتوبر2018 سے بجلی چوری کے خلاف مہم شروع کی گئی جس کا مقصد اووربلنگ اور بدعنوانی روکنا تھا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف 1 لاکھ 2 ہزار 823 مقدمات درج کیے گئے۔ 13 ہزار515 بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا اور 5295.21 ملین روپے وصول کیے گئے۔ صنعتی صارفین کو بلاتعطل بجل فراہم کی جا رہی ہے۔یکم جولائی 2018 سے 30 جون 2021 تک شکایات کے مرکزی نظام کے تحت 25 لاکھ 92 ہزار 355 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 25 لاکھ 91 ہزار 746 کو نمٹایاگیا۔ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں ہر ہفتے سب ڈویژن کی سطح پر کھلی کچہریاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے وفاقی حکومت نے گزشتہ تین سال کے دوران ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا ئے ہیں۔ زراعت کے شعبے کو جدید بنانے کے لئے سی پیک کے تحت83 ارب روپے لاگت کے 18منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی پر اتفاق رائے کیا ہے۔ سی پیک کے فریم ورک کے تحت زرعی تعاون پاکستان کے زرعی ترقیاتی صورتحال کے مطابق ہونا چاہئے جبکہ پنجاب اور سندھ کے شمالی حصوں کے ساتھ ساتھ ہم اس خطے میں زراعت کو جدید بنانے اور صنعتی بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی مصنوعات کی برآمدات کو بھی فروغ دیا جائے گا۔