کچھ تذکرہ حکومتی پالیسیوں کے مثبت پہلوئوں کا

ماشاء اللہ۔ ریاست مدینہ کے تصور کو اجاگر کرتے اور سابق حکمرانوں کو پورے دھڑلے کے ساتھ چور ڈاکو ثابت کرتے پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرلئے ہیں۔ جمعرات کا دن پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے اقتدار کے تین سالوں کی ساری کامرانیاں قوم کے سامنے رکھنے‘ ان تین سالوں کے دوران اجاگر ہوتے پاکستان کے ’’سافٹ امیج‘‘ سے عالمی برادری کو مکمل طور پر آگاہ کرنے‘ ان تین سالوں کی فتوحات و کامرانیوں کا جشن منانے اور پوری قوم کو اس جشن میں شامل کرنے کیلئے مخصوص کر رکھا تھا سو جمعرات کا دن ٹی وی سکرینوں پر کامرانیوں کے برملا اعتراف کے شاہکار دن کے طور پر اجاگر ہوتا رہا۔ ہمارے اپوزیشن والے تو ویسے ہی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بغض و حسد میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اس لئے وہ مارے حسد کے روزافزوں مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کساد بازاری اور مختلف مافیاز کی حکمرانی کا رونا روتے رہے اور اس پر حکومت کو مطعون کرتے رہے۔ 
درحقیقت یہ حسد ہی آدھے بھرے ہوئے گلاس کو آدھا خالی گلاس ظاہر کرتا ہے اور پھر گلاس کے آدھا خالی ہونے پر اسے آدھا بھرنے والے کے لتّے لینے کی فضا گرماتا ہے۔ مجھے اسی فضا میں آج پی ٹی آئی حکومت کی تین سال کی کارکردگی کے مثبت پہلو قوم کے سامنے پیش کرنے کی سوجھ رہی ہے۔ بھئی کیا ضروری ہے کہ حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکال کر قوم میں مایوسی پھیلانے کا کارنامہ ہی سرانجام دیا جائے۔ ہر کام میں یقیناً کوئی نہ کوئی مثبت پہلو بھی ہوتا ہے اس لئے آج ہم اپوزیشن کی تنقید کی زد میں آنیوالے حکومتی فیصلوں کے صرف مثبت پہلو آپ کے سامنے رکھیں گے جو مثبت صحافت کا تقاضا بھی ہے اور نظریۂ ضرورت ہمیں مثبت صحافت کا دامن تھامنے کا ہی درس دیتا ہے۔ 
حکومت پر سب سے زیادہ تنقید مہنگائی اور بے روزگاری پھیلانے پر ہوتی ہے جو ان حکومتی پالیسیوں کا یقیناً منفی پہلو ہے۔ مگر انکے مثبت پہلوئوں کا جائزہ لیں تو دل باغ باغ ہو جائیگا۔ آپ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر پندھرواڑے ہونیوالے اضافے کے اس مثبت پہلو کو کیوں فراموش کر رہے ہیں کہ اس طرح پٹرول عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوگا تو موٹر گاڑیاں‘ بائیکس اور ڈیزل‘ پٹرول سے چلنے والے دوسرے اسبابِ سفر بھی انکی پہنچ سے دور ہو جائیں گے۔ سو وہ پیدل سفر کرنے کو اپنا شعار بنائیں گے یا بائیسکل کے ذریعے سفر وسیلۂ ظفر بنے گا۔ اس طرح معاشرے کے وہ عام طبقات بھی جنہیں مختلف الیکٹرانک سہولتوں کی وجہ سے تن آسانی کی لت پڑ چکی ہے اور وہ گاڑیوں میں باسہولت سفر کرتے اور دفاتر و گھروں کے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں محوِ استراحت ہو کر اپنی صحت کا ستیاناس کرچکے ہیں۔ انہیں چاہے مجبوراً ہی سہی‘ ورزش کی عادت تو پڑ جائیگی‘ پیدل چلنا اور بائیسکل کے ذریعے سفر کرنا جسمانی ورزش کا بہترین ذریعہ ہے۔ کیا پٹرولیم مصنوعات کو مہنگا کرنے کی حکومتی پالیسی ہمارے معاشرے کے بے کار اور نڈھال انسانوں کو مستعد‘ چاک و چوبند کرنے اور تنومند بنانے کے راستے نہیں دکھا رہی۔ اس پر تو قوم کو حکومت کی بلائیں لینا چاہئیں۔
اب ایسا ہی مثبت پہلو ہم بجلی‘ گیس کے نرخوں میں بتدریج اضافے کی حکومتی پالیسی کے حوالے سے قوم کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ان ’’نکھِد‘‘ سہولتوں نے تو ہمیں عملاً ناکارہ بنا دیا ہے۔ بجلی سے ہمارے گھر ہمہ وقت منور رہتے ہیں‘ ایئرکنڈیشنر کی یخ بستہ ہوائیں ہمیں کمروں سے باہر نکلنے کا حوصلہ ہی نہیں دیتیں‘ جدید الیکٹرانک مشینری نے خانہ دار خواتین کو تن آسان بنا دیا ہے۔ انہیں آٹا گوندھنے اور اپنے بچوں اور شوہر نامدار کے میل کی تہہ جمے کپڑے ہاتھوں سے مل مل کر دھونے کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اس طرح اس جسمانی مشقت سے محروم ہونے کے باعث انکے دلوں میں اپنے خاندان کے ساتھ بے پایاں محبت کا جذبہ بھی مفقود ہونے لگا ہے اور بجلی‘ گیس سے چلنے والی الیکٹرانک مشینوں نے ایک دوسرے کا پیار محبت کے ساتھ خیال رکھنے والے انسانوں کو مادیت پرستی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ایسی سہولتوں کا تصور بھی نہ کرنیوالا پچھلے زمانے کا انسان محنت‘ مشقت کا عادی فعال اور باوقار انسان تھا۔ 60ء کی دہائی تک ہمارے اپنے گھر میں بجلی کی سہولت نہیں تھی مگر گھر کے افراد کے مابین خلوص اور محبت کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے اپنی انٹر تک کی تعلیم کا سارا سلسلہ کھیتوں‘ کھلیانوں میں گھنے درختوں کے سائے اور قدرتی تازہ ہوا میں مکمل کیا۔ کبھی محرومی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو درسی کتابیں ساتھ لے کر جاتے۔ اس طرح پنجگانہ نماز کا فریضہ بھی ادا ہوتا اور پوری توجہ کے ساتھ درسی کتب کا مطالعہ بھی ہو جاتا۔ اس شیطانی بجلی کی سہولت نے تو ہم سے تمام انسانی اقدار‘ سلیقے والی محنت و مشقت اور محبت و اپنائیت کے سارے جذبے ہی چھین لئے ہیں۔ اگر اب پی ٹی آئی کی حکومت کی بجلی‘ گیس مسلسل مہنگی کرکے اس ناکارہ سہولت کو عوام کی دسترس سے دور لے جانے کی پالیسی نے ہمارے لئے ماضی کے باوقار اور انسانی قدروں والے دور کی طرف واپس جانے کے اسباب پیدا کر دیئے ہیں تو اس پالیسی کا یہ مثبت پہلو آپ کی نظروں سے کیوں اوجھل اور ذہنوں سے کیوں محو ہو جاتا ہے۔ 
ارے بھائی! ہم تو 70ء کی دہائی میں اپنی طالب علمی اور صحافت کے ابتدائی دور میں کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیرلوکل بس کی رعایتی ٹکٹ کے دس پیسے بچانے کی خاطر اکثر فیصل چوک شاہراہ قائداعظم سے ساندہ تک کا پیدل سفر طے کرلیا کرتے تھے کیونکہ اس بچائے گئے دس پیسے کے عوض ہمیں کرشن نگر کے آخری بس سٹاپ کے سامنے موجود کنگز ہوٹل پر پھینٹ کر پھیلائے گئے اور لوہ پر پکائے گئے باریک پھلکے کی اضافی سہولت مل جاتی تھی۔ یہ پھلکا دس پیسے میں ہی ملتا تھا۔ اس طرح ہم دو کی بجائے تین پھلکے اپنے پیٹ کا ایندھن بنانے کے قابل ہو جاتے۔ 
پھر اس پیدل سفر کی عادت نے پیدل ہم سفر دوستوں کی فہرست بھی طویل کر دی۔ معصوم مزاحیہ شاعر استاد پھل آگروی ہماری پیدل ہم سفری کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ منچلے دوستوں نے انکے اعزاز میں غالباً 1979ء میں شاہراہ قائداعظم پر فیصل چوک کے عین درمیان 22؍ جون کی چلچلاتی دھوپ میں دوپہر منائی اور انہیں پھولوں کے ہاروں کے ساتھ ساتھ گرم کپڑوں میں بھی ڈھانپ دیا۔ پھل آگروی پسینے میں شرابور ہانپتے نڈھال ہوتے اس شعر کا ورد کرتے بمشکل پنڈال سے باہر نکلے کہ…؎
پھل بِک رہا ہے پھل کی دکاں پر تو کیا ہوا
تھانے میں تھانیدار برائے فروخت ہے 
پھر ساندہ تک ہماری پیدل ہمفسری۔ ارے کیا معصوم و بے باک زمانہ تھا۔ اس ہم سفری میں چوک انارکلی سے کبھی کبھار راجہ ذوالقرنین ذوق بھی ہمارے شریک سفر ہو جاتے جو یونیورسٹی لاء کالج میں ہمارے سیکشن فیلو ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح مرحوم عباس نجمی بھی کبھی کبھار ہمارے پیدل ہم سفر بن جاتے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کی مہنگائی پالیسی کی بدولت یہ شاندار اور جاندار دور واپس آجائے تو اس پالیسی کا اس سے بڑا مثبت پہلو اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور بھائی صاحب! ہم خاکی‘ فانی انسانوں کا اصل ٹھکانہ تو قبر ہی ہے۔ اس ٹھکانے تک پہنچتے پہنچتے ہمیں کس کس انداز میں اپنی نخوت و تکبر والی انسانی جبلت کو جبر و اکراہ کے ساتھ دبانا اور ’’مَیں‘‘ کو مارنا پڑتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کی جان بچانے والی ادویات کے نرخ آسمان تک پہنچانے اور بے روزگاری پھیلانے کی پالیسی ہمیں ’’میں‘‘ کے تکبر کے بغیر قبر کے اصل ٹھکانے کی جانب سرعت اور سبک خرامی کے ساتھ لے جائیگی تو بھائی صاحب! اس پالیسی پر تو ہمیں حکومت کارطب اللسان ہونا چاہیے۔ 
آپ نے شہنشاہانِ معظم و ذی وقار کے جلال اور سیاہ و سفید والی حکمرانی کے قصے تو بہت سنے ہونگے مگر وہ بھی اے سی کی یخ بستہ ہوائوں‘ ریفریجریٹر‘ ڈیپ فریزر اور الیکٹرانک مشینری کی دوسری سہولتوں سے محروم تھے۔ اب پی ٹی آئی حکومت کے تین سال کے دوران اس جلالی دور کی یاد تازہ ہو رہی ہے تو خاطر جمع رکھئے جناب! موجودہ دور کے شہنشاہِ معظم کو بھی ان ساری سہولتوں سے محروم ہونا اور چھت پر لٹکائے موٹے کپڑے کے دبیز تہوں والے بڑے پنکھے (جھولے) کے ذریعے اپنے ہاتھوں کا زور لگا کر ہی ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا اہتمام کرنا یا کراناپڑیگا۔ سو محمود و ایاز سب ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے۔ آپ حکومتی پالیسیوں کے ایسے مثبت پہلو نظرانداز کرکے فی الواقع کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن