زندگی کا حشر نشر

جشن آزادی پورے لوازمات، خوب دھوم دھڑکے اور تمام تر حشر سامانیوں سمیت اپنے نشانات ثبت کرتا ایک منہ زور ریلے کے ساتھ گزر چکا ہے ۔ یوں لگتا تھا باجوں کی پھنکار سے تمام دشمن زیر ہو چکے ہیں ۔ کبھی ان باجوں کی تان مداری کی اس بین سے مشابہ لگتی جس کے راگ سے زہریلے سانپ بلوں سے باہر آ جائیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی لبیک کے نعرے کی للکار میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرا تو لگا جیسے دشمن کے سینے سے کلیجہ نکال لیا ہو اور تمام تر طاغوتی طاقتیں جہنم رسید کر دی گئیں ہیں ۔  ملیچھ رنجیت سنگھ۔۔۔ مرے ہوئے دشمن کو مارنا تو ویسے ہی ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آ سکا کہ مینار پاکستان پر آئی لڑکی کیا تھی ۔ دشمن؟ لیکن جنگ کا تو اصول یہ ہے کہ بچوں اور عورتوں کو پناہ دی جاتی ہے تو پھر اچانک الگ الگ کھڑے لوگ جو بے ضرر اور معصوم لگتے ہیں اچانک یہ اکائیاں مل کر ایٹم بم میں کیونکراور کیسے تبدیل ہوئیں اور ایٹم بم بھی ایسا جو روح کو چیر دے کہ آنے والی نسلوں کے سر بھی شرم سے جھک جائیں ۔ ندا فاضلی کا شعر یاد آ گیا …؎
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی 
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا 
لیکن ہمیں تو ہر بار ایک ہی طرح کے منظر ،ایک ہی فیصلے ایک طرح کی سیاست ، ایک ہی طرح کی سازشیں ،ایک ہی ڈگر ،ایک ہی رستہ دیکھنے کے عادت ہو جانا چاہیے تھی۔  ہمیں مزاحمت کے نام پر نشان عبرت بننے والوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے یا پھر بغاوت کا علم تھامے منزل پر قدم۔ جمائے رکھنا تھے ۔ تو پھر اچانک یہ ہجوم کہاں سے برآمد ہوتا ہے جو موقع دیکھتا ہے نہ منظر ۔ اسے اپنے پرائے کی تمیز بھی نہیں اور اس کی نفسیات … ہانکے ہوئے جانوروں کے ریوڑ کی طرح پل پڑنا اور وہ بھی آنکھوں پر پٹی بندھے بیل کی طرح یا گدھ کی طرح آنکھوں میں بلکتی بھوک لیے نوچنے پر آمادہ ۔ ۔ اس واقعہ کے سچ یا جھوٹ کی تصدیق پر بات نہیں ۔ بات اس جنون و وحشت کی ہے جو آہستہ آہستہ اپنا گھر بنا رہی ہے۔ وہ عینی ہو ظاہر شاہ یا ایکس وائی زیڈ۔ ایسی بے امنی اور غیر تحفظ کا احساس ہی کیوں پروان چڑھے ،ہجوم کیوں بپھر جاتا ہے وہ پٹرول لوٹنا ہو یا کسی دکان کا سامان ۔ ہمیں اپنے پرائے اور حلال و حرام کی تمیز کیوں بھول جاتی ہے ۔  ہم یقین اور فیصلوں میں آزاد ہیں ۔ ماضی کی شخصیات سے لے کر ان کے کیے گئے فیصلے ہماری تنقید کی زد میں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں لیکن حال کے مناظر پر ہمیشہ ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔  اس ڈاکٹر کی طرح مریض کو موت کے منہ میں دھکیل کر یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ سوری یہ قدرت کا فیصلہ ہے ۔ اے کاش !پاکستان کا جسم ہوتا تو ہر عورت کی بے حرمتی پر تڑپ اٹھتا۔ کاش اس کے ہاتھ ہوتے تو ہر مقام۔ پر بے لگام ہجوم کے ہاتھ توڑ دیتا ۔  اس کے پیر ہوتے تو ایسے رذیل ہجوم کو پیروں تلے روند ڈالتا ۔ اس کی آنکھیں۔ ہوتیں تو آزادی کی نمائندہ ان آنکھوں کی تنبیہ سے کتے بھی اپنی جگہ پر جم جاتے، لیکن مضبوط علامتی ڈھال ہے اور اتنی ہی مضبوطی سے ہماری آزادی کا بوجھ سبز و سفید پرچم کی صورت اٹھائے کھڑا ہے ۔
 ہمارے سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس اسمبلی میں خواتین کو گندے القابات سے پکارا جاتا ہو اور ارکان کی غیرت مصلحت کے پاٹھ پڑھنے میں مگن ہو ۔ جس ملک کے وزیر ہجوم کے سامنے یہ کہتے نظر آئیں کہ ایک تھپڑ پڑا تو تمہاری ساری سرجری اتر آئے گی اور ہجوم تالیاں بجائے وہاں ایسے ہجوم کو دراصل یہ شہ دی جاتی ہے کہ جائو جس کے چاہے کپڑے اتارو ۔ جسے چاہو اچھالو ۔ نوچو ۔  اس بات پر بحث ہی فضول ہے کہ لباس کیسا تھا اور اکیلی کیوں تھی ۔  وزیراعظم صاحب آپ کو اپنے وزراء کی زبان اور دھمکیوں پر بند باندھنا ہو گا جو آج کہہ رہے ہیں کل موقع ملا تو وہ یہ کر گزریں گے ۔  آپ نے درخت مینار پاکستان میں لگائے ہوتے تو وہ لڑکی کسی درخت پر چڑھ کر خود کو بچا لیتی ۔  یہ قوم آہستہ آہستہ زومبیز بنتی جا رہی ہے ۔ آپ کو برقعہ کے بغیر عورت کے لیے بھی تحفظ کا ویسا ہی معیار طے کرنا ہو گا ۔   درخت لگانے سے فرصت ملے تو آپ اپنے گھر کو تالہ لگانے کی مثال کے بجائے مغربی دنیا کو سمجھنے کا شعور اور انصاف کی مثال بھی دیجیے تا کہ اس بے لگام اور وحشی ہجوم کی تربیت ہو سکے ۔  بنی بنائی عمارات پر اپنی حکومت کی تختیاں لگانے کے بجائے پہلی عمارت کو مضبوط کیجیے۔ ہمیں غیرت سے زیادہ شعور و آزادی کی ضرورت ہے وگرنہ زمین درختوں کے باوجود بنجر رہے گی اور ہم کہتے پھریں گے کہ …؎
زندگی کی ضرورتوں کا یہاں 
حسرتوں میں شمار ہوتا ہے 
رہے نام اللہ کا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...