اسوئہ زینبؓ اور موجودہ خواتین 

Aug 27, 2021

سرور کونین ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد براہ راست حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی کفالت میں آگئے۔ نبی آخرالزماں ﷺ کے زیر نظر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی۔ رسول خدا ﷺ کے بعد تمام خلق میں سب سے زیادہ فصیح البیان، الفاظ لغت عربی میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت ہیں۔ ہم علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، علم، فصاحت و بلاغت پر جتنا لکھیں اور بیان کریں وہ ایک قطرے کی حیثیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا کا گھرانہ اس کائنات کا سب سے آئیڈیل گھرانہ کہ جس کی پیروی دارین کی کامیابی کی کنجی ہے۔ حضرت فاطمہؓ خاتون جنت کے ہاں 5 جمادی الاول 6 ہجری کو مدینہ منورہ میں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ آپ کی ولادت کو بڑی سعادت حاصل ہے کیونکہ آپ کا استقبال نبی رحمت ﷺ، خیبر شکن حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت فاطمہؓ، جنت کے سرداران حضرت حسن اور حسینؓ نے کیا۔ بیٹی کا نام ''زینب'' منتخب کیا گیا۔ جناب زینبؓ کا نام گرامی زینب رکھنے کی خاص وجہ یہ کہ زین اب یعنی باپ کے لیے باعث زینت۔
؎ اسلام کا سرمایہء تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تہور میں علی ہے
حضرت زینبؓ نے فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھرانے میں پرورش پائی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے شجاعت، فصاحت و بلاغت، علم، عمل، تقوی کی تعلیم حاصل کی۔ باپ اور بیٹی کے درمیان بہت ہی فکری و لسانی شباہت تھی۔ خواتین جنہیں صنفِ نازک کہا جاتا ہے حضرت زینبؓ نے ایسا کردار ادا کیا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ موجودہ دور کی خواتین کے لیے روشن قندیل ہیں۔ مارچ کے مہینے میں اپنے حقوق کے حوالے سے نامعقول پلے کارڈز اٹھانے والی خواتین کے لیے حضرت زینبؓ بنت علی ؓکے اس خطبے میں بہترین نمونہ ہے جو انہوں نے یزید کے دربار میں پیش کیا۔ خواتین کے لیے انمنٹ مثال قائم کر دی کہ باطل قوتوں کے سامنے انقلابی موقف کیسے پیش کیا جاتا ہے!. موجودہ دور کی خواتین سیدہ زینبؓ کے اُسوئہ میں عصمت،شجاعت اور فصاحت و بلاغت پر عمل پیرا ہو کر اپنے حقوق کے جائز مطالبات احسن طریقے سے پیش کر سکتی ہیں۔ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد بہت سخت وقت تھا جب زینبؓ کا لاثانی کردار شروع ہوا۔ سیدہ زینبؓ پر کربلا میں جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوئی تھیں سیدہ زینبؓ نے بہت بہادری اور احسن طریقے کے ساتھ ادا کیں۔ 21 ویں صدی کی خواتین جنہیں لیڈرشب کی نشست ملے ان کے لیے سیدہ کی سیرت میں کامل رہنمائی موجود ہے کہ ذمہ داریوں کو بجا لانے میں کمی کوتاہی نہ برتی جائے اور لیڈرز ہمت مت ہاریں۔
 اگر سیدہ زینبؓ بڑے سانحہ کے نتیجے میں ہمت ہار جاتیں تو کربلا کے بیابان صحرا میں شجاعت و حریت کا کسی کو علم بھی نہ ہوتا۔ انہوں معصوم بچوں اور غم سے نڈھال پاک بیبیوں کی ہمت کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ یزید کے دربار میں ضمیر کو جگانے والا بے نظیر خطبہ ارشاد فرمایا۔ عصر حاضر کی خواتین کے لیے درس ہے کہ اپنے جائز مطالبات کے لیے ایسے فقروں،جملوں اور لاؤڈ سپیکر پر ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جس سے ان کا موقف روز روشن کی طرح واضح ہو کوئی ابہام نہ رہے کہ ان خواتین کا جاری احتجاج تعمیری ہے یا کہ تخریبی!ضمیر کو جگایا جائے نہ کہ ذومعنی پلے کارڈز اور پوسٹرز پر اشتعال کو ہوا دی جائے۔ 
سیدہ زینبؓ نے کٹھن حالات میں بھی دین داری کو نہیں چھوڑا۔ عصمت کی چادر کو سر پر رکھتے ہوئے باطل نظام کو سرنگوں کردیا۔ مگر موجودہ دور میں ہمارے ہاں مارچ کے مہینے میں عجب طوفانِ بدتمیزی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ آزادی اور ماڈرن ازم کے نام پر مختصر لباس پہن کر احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا ہے۔ شرم و حیا کی حدود و قیود کا لحاظ نہیں رکھا جا رہا۔ ذرا سوچئے! قوموں کا شیرازہ ہم خواتین سے ہے اگر ہم اپنے اسلاف کی تہذیب و ثقافت کو فراموش کرکے مغربی نظام کو نقل کریں گی تو تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گی۔ سیدہ زینبؓ نے یزید کے دربار میں اپنے خیالات کا اظہار اس فصاحت و بلاغت اور لب و لہجہ کے ساتھ کیا کہ حاضرین کا یہ عالم تھا کہ ہر کوفی حیران تھا ’’علی پھر آگئے‘‘؟
؎ باتوں کو ترازو کی طرح تولنے والی
بھائی کی شہادت کی گرہ کھولنے والی
تاریخ کی آنکھوں میں حیا گھولنے والی
وہ فاتحِ خیبر کی طرح بولنے والی
اسلام کو روشن بصد اعزاز کیا ہے
عباس کے پرچم کو سرافراز کیا ہے
سلام نبی رحمت ﷺ پر اور ہزاروں درود و سلام ہو اہل بیت کی پاکیزہ سیرتوں پر۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں