قائداعظم جیسے سربراہ مملکت کی ضرورت

مکرمی! انگریز اور ہندو ہر دور کی مکارانہ سیاست کا مقابلہ کرنے کیلئے قدرت نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو مجاہد کا سا کردار ، جذبہ اور جرأت دی۔ انگریز اور ہندو کی سیاسی منافقتوں، چالبازیوں اور مکاریوں کے مقابلہ میں قائد کا سیاسی کردار، رول اور سیاسی موقف ہر مرحلے پر ہمیشہ سچ پہ ہی مبنی رہا۔ قائداعظم جھوٹ کی سیاست سے نفرت کرتے تھے۔ انہوں نے سیاست میں بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ سیاسی آلائشوں، ذاتی اغراض اور جھوٹ سے پاک و صاف تھے۔ قائد اگر صادق و امین تھے تو ان کے قریبی ساتھی بھی اسی معیار کے تھے۔واصف علی واصف کا ایک جملہ ہے کہ ’’ہمیں پاکستان میں بس اتنا ہی اسلام چاہئے جتنا کہ قائداعظم کے پاس تھا‘‘ مطلب یہ کہ صادق و امین ایک ایسی صفت ہے جس کے اندر پورا اسلام ہے۔ اس اعلیٰ و ارفع کردار کی وجہ سے ہی مسلمانان ہند ان کے پیچھے ایک سیسہ پلائی دیوار کی دیوار کی مانند کھڑے ہوگئے۔ انگریز اور ہندو حیران تھے کہ ایک شخص ساری زندگی کیسے راست روی اور راست گوئی میں گزار سکتا ہے۔ بابائے قوم نے اپنا سب کچھ پاکستانی قوم کے نام کردیا۔ ایمانداری، محنت اور اصول پسندی بھی قائد کی وراثت تھی۔ افسوس مگر اس وراثت کو ہم نے بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا۔ قائداعظم کا فرمان ہے اگر میرے بنائے ہوئے پاکستان میں بھوکے کو روٹی، غریب کو چھت اور مظلوم کو انصاف نہیں ملا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ قائداعظم بلاشبہ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو ہیں جن پر ساری قوم ہمیشہ فخر کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔(محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...