”میں ہوں آخری گواہ “

دنیا بھر میں برپا ہونے والی آزادی اور خودمختاری کی تحریکیں عالمی تاریخ کا اہم موضوع ہیں۔ باشعور افراد اور اقوام نہ صرف زندگی کے مقاصد کا شعور رکھتی ہیں بلکہ مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کےلئے راستے کی رکاوٹوں کو حتی المقدور دور کرتی جاتی ہیں چاہے اس عمل میں جان کی قربانی بھی دینی پڑے۔ شوق ہر رنگ رقیب سروسامان نکلتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندوستان بھی پیچ دار آزمائش کے طویل دور سے گزرا۔
دو صدیوں پر محیط برطانوی تسلط کے خلاف ہندوستان میں برپا ہونے والی تحریک آزادی اپنے منفرد انداز میں عالمی تاریخ کی طویل ترین مزاحمتی لہر ثابت ہوئی۔ اس کٹھن اور مصائب و آلام سے لبریز سفر کے دوران میں ناقابل عبور رکاوٹیں سدِّ راہ بنیں۔ قانون، آئین اور دیگر عوامل نے ارتقائی منازل طے کیں۔ فرقہ ورانہ فسادات ماحول کو متاثر بھی کرتے رہے مگر عوامی تائید کے بل بوتے پر بالآخر منزل مراد مقدر بنی۔ خودمختاری اور آزادی کا ہدف حاصل ہوا۔لیکن یہ دردناک حقیقت بھی ہمارے نصیب میں لکھی تھی کہ وہ ہم سفر جنہوں نے برطانوی تسلط کے طویل صبر آزما عرصہ میں مشترک کوششوں سے آزادی کی تحریک کو فعال رکھا انہوں نے تحریک کے آخری مرحلہ میں جبکہ ہدف کا حصول دنوں کی بات تھی کہ انہوں نے ایک دوسرے کا خون بہا کر اور عزتیں لوٹ کر آزادی کو اتنا داغ دار بنا دیا کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کا گریباں تھامے ہوئے ہیں۔
قرآن پاک کے متفرق موضوعات میں اقوام کے عروج و زوال کے محرکات، اسباب اور نتائج کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا نوحؑ، سیدنا موسیٰؑ اور حضور خاتم النّبیینﷺ کے تذکروں کے حوالے سے قرآن پاک نے مختلف ادوار میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکوں کی تاریخ محفوظ کرلی تھی تاکہ آنے والی نسلیں تدبیر منزل کے مرحلہ میں تذبذب کا شکار نہ ہوں۔
اسی سلسلہ میں قرآن حکیم نے ا±ن بھاری پتھروں کی نشاندہی بھی کردی جن کی وجہ سے عوام غلط روایات کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور انسانی فکر زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے۔ سورة الاعراف آیت ۱۵۷ میں نبی آخرالزماںﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ نے انسان کو سیاسی، معاشی، علمی اور فکری سطح پر آزاد کرانا ہے۔ ان تمام زنجیروں کو وحی کی روشنی میں کاٹنا ہے جو انسان کے فکری ارتقاءمیں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس اہم کام میں نبی پاکﷺ کی مدد کرنے کی تاکید بھی کی ہے۔
پاکستان کے ظہور سے آج لمحہ¿ موجود تک تین نسلیں گزر چکی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل ان محرکات کو جاننا چاہتی ہے جن کے نتیجہ میں برطانوی تسلط کے خلاف برصغیرہند میں آزادی کی تحریک نے جنم لیا تھا۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ سیاسی و قانونی سطح پر تحریک کن مراحل سے گزری اور اسے کس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مزیدبرآں یہ کہ آزادی کی تحریک کس شکل میں نتیجہ خیز ہوئی۔
 اس تمہید کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ ا±ن وجوہات کی نشاندہی کی جائے جن کی بنیاد پر ہندوستان میں اٹھارویں سے بیسویں صدی تک کے دورانیہ میں برطانوی تسلط کے خلاف آزادی کی تحریک نے جنم لیا تھا اور اس طویل صبرآزما کشمکش میں کون کون سے اور کس نوعیت کے کٹھن مراحل آئے اور آزادی کی یہ بغلی لہر کس انداز سے اپنے انجام کو پہنچی۔
تحریک آزادی کی ایک شاخ تحریک پاکستان کی شکل میں مارچ )1940ءمیں نمودار ہوئی جس کی تکمیل سات سال بعد 15اگست 1947ءکو ہوئی۔ اس آخری مرحلہ میں ہندوستان کی جغرافیائی تقسیم وہ واحد عنصر تھا جو آج تک ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس تقسیم اور حد بندی کا تعلق سر سِرل ریڈکلف چیئرمین باو¿نڈری کمیشن کے ایوارڈ (فیصلے) سے تھا جو بدقسمتی سے (برطانوی نمائندہ وائسرائے کی سازش کی وجہ سے) نہ صرف تبدیل ہوا بلکہ مجوزہ 15اگست 1947ءسے پہلے سنایا بھی نہ گیا۔
اس کمیشن کی کاروائی جولائی اگست 1947ءبمقام لاہور ہوئی جس کی مکمل کہانی ابھی تک ہم وطنوں کی غالب اکثریت تک نہیں پہنچی۔ اس کمیشن کے سامنے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم نے وکلاءکی جس ٹیم کو مقرر کرنے کی منظوری دی تھی اس میں راقم کے والد سید محمد شاہ ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ اس وقت راقم ایف سی کالج لاہور کا طالب علم تھا جبکہ دونوں بڑے بھائی میڈیکل کی تعلیم کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم تھے۔ اس وجہ سے ہمیں اس تاریخی مرحلہ میں خدمت کرنے کا موقع میسر آیا۔
اِس وقت راقم ہندوستان پاکستان میں وہ آخری شخص ہے جو باو¿نڈری کمیشن کی روزمرہ کی کاروائی اور ہندوستان کی تقسیم والے مقدمہ سے واقف ہے۔ چنانچہ راقم نے پہلی بار وہ کہانی طویل پس منظر کے ساتھ اپنی آنے والی کتاب ”میں ہوں آخری گواہ“ میں بیان کر دی ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن