کور کمانڈرز کانفرنس : سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایت

Aug 27, 2022


قومی ایمرجنسی کے نفاذ بعدآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں آرمی فارمیشنز کو ملک بھر میں جاری بارش کے دوران سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی ہر ممکن مدد کی ہدایت کردی ہے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فارمیشنز کو ہدایات دیں کہ آپریشنل تیاریاں برقرار رکھیں اور خاص طور پر خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری رکھیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق شرکا نے غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور بنیادی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچنے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کی تکالیف کم کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کا عزم کیا۔آرمی چیف نے جاری امدادی کوششوں کو سراہا اور آرمی فارمیشنز کو سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایت کی۔انہوں نے کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں آسانیوں کے لیے ہر ایک متاثرہ فرد تک پہنچنا چاہیے۔خیال رہے کہ ملک میں حالیہ مون سون سیزن کے دوران ہونے والی تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 913 افراد جاں بحق اور 3 کروڑ شہری بے گھر ہوگئے ہیں۔ پاک فوج کی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جنگی بنیادوں پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں ۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایات پر پاک فوج کے دستے سندھ، بلوچستان، پنجاب، کے پی میں سول انتظامیہ کی مدد کررہے ہیں پاکستان کے تمام صوبوں میں بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال بہت سنگین ہے اور تین کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔‘ملک بھر میں بارشوں سے ہلاکتوں کی تعداد 913 ہو چکی ہے۔سندھ میں 169 ، خیبرپختونخوا میں 169 اور پنجاب میں 164 لوگوں کی جانیں اب تک سیلاب کی وجہ سے جا چکی ہیں۔ بارشوں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں جو کہ 220 سے زائد ہیںآئی ایس پی آر کے مطابق موسمی تبدیلیوں کے براہ راست اثر کے طور پر اس مون سون کے دورا ن پاکستان کو غیر معمولی بارشوں،GLoFاور Cloud Burstکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے متعدداضلاع میں سیلابی صورتحال اور بھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپنی قومی ذمہ داری کے تحت، پاکستان آرمی نے نوٹیفائیڈ متاثرہ علاقوں میں ایک بھرپور ریسکیو اور ریلیف مہم کا آغاز کیا ہوا ہے۔ اس ضمن میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن کو منظم کرنے کے لیے ہیڈ کوارٹر آرمی ائیر ڈیفنس کمانڈ کے ماتحت ریلیف اور ریسکیو آرگنائزیشن قائم کر دی گئی ہے۔ اب تک40,000لوگوں کو محفوظ مقامات اور آرمی کے قائم کردہ137سے زائد ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ مزید برآں، 200کے قریب عارضی طبی مراکز میں 23,000لوگوں کو ادویات اور طبی مدد فراہم کی گئی ہے۔ اسی طرح آرمی اپنے موجود اسٹاک میں سے3700سے زائد ٹینٹ اور ضرورت کی دیگر اشیاءبھی متاثرین میں تقسیم کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف کے خصوصی حکم پر آرمی اپنے3دن سے زائد راشن(تقریباََ1500ٹن) کو بھی سیلاب سے متاثرہ علاقے میں عام لوگوں میں بانٹ چکی ہے۔ اسی جذبے کے تحت آرمی کے تمام جنرل آفیسرز نے اپنی ایک ماہ کی نتخواہ متاثرین کی مدد کے لیے دی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر افسران بھی رضاکارانہ بنیاد پر مالی عطیات دے رہے ہیں۔ لیکن اس سب امداد کے باوجود، سیلاب کی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ مزید ریلیف کی چیزوں اور ادویات کی اشد ضرورت ہے تاکہ متاثرین کی جلد از جلد دادرسی کی جا سکے۔ ایسے میں ہم سب کا یہ قومی فریضہ ہے کہ ضرورت کے اس لمحے میں اپنے متاثرین بہن بھائیوں اور بچوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں کئی مخیر حضرات نے آرمی سے اس مد میں رابطہ بھی کیا ہے۔ اس اہم کاوش کی اہمیت کے مدِ نظر پاکستان آرمی وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت تمام بڑے شہروں میں عوام کی طرف سے عطیہ کیے جانے والے سامان کی کولیکشن کے لیے عطیہ مراکز قائم کرے گی۔ جہاں ضروری اشیائ جیسا کہ ٹینٹ، شلٹر، شمسی لائٹس، بستر/گدا، موسمی کمبل /چادر، پانی ذخیرہ/صاف کرنے کی کٹ/ٹینک، ٹارچ/ لائیٹس، بارش والے جوتے اور ترپال وغیرہ جمع کیے جائیں گے۔راشن, آٹا، گھی، چاول، دال، خشک دودھ، چینی، پتی پینے کا صاف پانی بھی وصول کیا جائے گا۔ فرسٹ ایڈ کٹ، ضروری ادویات جیسے کہ ڈائریا، آنکھ، کان اور جلد کی بیماریاں، ڈی ہائڈیریشن، ڈینگی اور ملیریا کی ادویات۔مخیر حضرات اس انسانی ہمدردی اور قومی المیہ کے موقع پر بڑ ھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔ ان تمام اشیائ کی جلداز جلد سیلاب زدہ علاقوں میں منتقلی او ر متاثرین کو فراہمی پاکستان آرمی یقینی بنائے گی۔ علاوہ ازیں ہم وطنوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ غیر ضروری اشیائ جیسے کپڑے، برتن ار کھانے کی کھلی اور خراب ہونے والی اشیائ وغیرہ ان مراکز پر جمع نہ کروائیں تاکہ فراہمی مدد کو متاثرین کی ضرورت کے مطابق مرکوز رکھا جا سکے۔ مزید مالی استطاعت والے پاکستانی بھائیوں سے درخواست ہے کہ حکومت پاکستان کے قائم کردہ اکاو¿نٹ میں دل کھول کر عطیات دیں۔ اس دکھ اور تکلیف کے مرحلے میں پاکستان آرمی، قوم کے شانہ بشانہ اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کر نے کے لیے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں نہ صرف ریسکیو اور ریلیف پر توجہ دی جا رہی ہے بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی خصوصی درخواست پر اچھی مہم کی بنیادی ضرورت کے طور پر آرمی تمام نوٹیفائیڈ متاثرہ علاقوں میں مشترکہ سروے کرنے میں سول انتظامیہ کو بھرپور مدد فراہم کر رہی ہے۔ جس کا آغاز صوبہ بلوچستان سے کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے ملک میں سیلاب کو قومی ہنگامی صورتحال قرار دیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ میں قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے قومی جذبے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی کے لیے وسائل کو متحرک کیا جا رہا ہےوزیر اطلاعات نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے عطیات دیں کیونکہ بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر بڑی رقم کی ضرورت ہوگی جبکہ قبل ازیں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں جن کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں، لیکن سندھ میں سب سے زیادہ بارش ہوئی اور بارش کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔


انہوں نے کہا تھا کہ سیلاب کے اس وقت جو حالات ہیں اور تیزی ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، اس سیلاب کے باعث سندھ، بلوچستان اور سوات میں تباہی کے مناظر ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ہماری زندگی میں مثال نہیں ملتی۔شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بارش سے 23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں، قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے، سندھ کے 30 اضلاع مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں، صورتحال بہت سنگین ہے۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ حالیہ مون سون سیزن کے دوران ہونے والی تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 913 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 3 کروڑ شہری بے گھر ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کریں گے۔حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں جن کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پورے ملک میں ہی بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن سندھ میں سب سے زیادہ بارش ہوئی، بارش کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کی اس وقت جو صورتحال اور تیزی ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، اس سیلاب کے باعث سندھ، بلوچستان اور سوات میں تباہی کے مناظر ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ہماری زندگی میں مثال نہیں ملتی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب کے دوران علاقوں میں موجود پانی 2010 میں ا?نے والے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ ہے، تواتر کے ساتھ بہت بڑی مقدار میں سیلاب کے باعث صورتحال خراب ہے۔وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ حالیہ مون سون موسم جیسا سسٹم بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، ہم 8 ویں اسپیل سے گزر رہے ہیں جبکہ اس سسٹم کے تحت سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔بارش سے 23 اضلاع ا?فت زدہ قرار دیے گئے ہیں، قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے، سندھ کے 30 اضلاع مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں، صورتحال بہت سنگین ہے، اسی وجہ سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے یورپ کا دورہ ملتوی کیا، اس کے ساتھ اطلاعات مل رہی ہیں کہ وزیر اعظم نے بھی اپنا دورہ ملتوی کیا ہے۔ بارش کے باعث کئی علاقوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے، ہم رابطوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2010 کے سیلاب میں دریائے سندھ کے ایک طرف پانی تھا اور پانی ریور سسٹم میں تھا، جبکہ اس مرتبہ اطراف میں پانی موجود ہے اور ریور سسٹم کے باہر بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ تقریباً پورا جنوبی پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑا بحران ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنے تمام وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، پاک فوج متحرک ہے، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم ایز سمیت تمام متعلقہ ادارے سرگرم عمل ہیں جبکہ امدادی اشیا کی تقسیم کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور صوبائی حکام کے ذریعے کی جارہی ہے۔ سیلاب کے باعث 3 کروڑ لوگ بے گھر ہیں، متعلقہ ادارے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگا رہے ہیں، این ڈی ایم اے اس وقت امدادی ضروریات کا جائزہ لے رہا ہے، ہم اقوام متحدہ سے امداد کے لیے انٹرنیشنل فلیش اپیل بھی کریں گے، اس بڑے بحران نے نمٹنا کسی ایک ملک یا صوبے کے بس کی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث 913 شہری جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ بہت سے شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں کے باعث 169 شہری خیبر پختونخوا میں جاں بحق ہوئے جبکہ 164 افراد پنجاب میں موت کے منہ میں چلے گئے، اسی طرح سندھ میں 293 افراد لقمہ اجل بنے اور 230 شہری بلوچستان میں جان کی بازی ہار گئے۔عالمی عطیہ دہندگان نے بھی کل امداد کے لیے ہم سے اعداد و شمار طلب کیے ہیں۔

مزیدخبریں