انتخابات کا سیاسی لارا لپہ

Aug 27, 2023

غلام حیدر شیخ

موجودہ ملکی حالات میں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں آئینی مدت میں انتخابات کا سیاسی لارا لپہ دے کرعوام کو اصل حقائق سے بے خبر رکھنے اور پسِ پردہ عوامل کو اپنے حق میں بڑی خوبصورتی سے لانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ،دراصل ملک کے ادارے اور سیاسی جماعتیں انتخابات کو وقتی طور پر 90 دن کی آئینی مدت میں کروانے کے حق میں نہیں ہیں، اس کی و جہ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی گزشتہ کارگردگی کی بنا پر عوام میں جانے سے فی الوقت گریزاں ہیں۔ 
پی ڈی ایم کی حکومت نے مشتر کہ مفادات کونسل کے اجلاس میں 2023 ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دے کر الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کیلئے آئینی مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ انتخابات کو 90دن کی آئینی مدت میں کروانے کا تاخیری حربہ استعمال کیا ،اب انتخابات کا 90 دن میں انعقاد ناممکن ہے کیونکہ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد حلقہ بندیاں بھی ایک آئینی تقاضہ ہیں ، لہذا الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت طلب کی ہے ، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق 17اگست 2023ء تک ملک کے تما م نو ٹس کی حدود منجمند کر دی ہے ، 21 ، اگست تک اسلام آباد سمیت ہر صوبے کیلئے حلقہ بندیوں کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی ، جس کے بعد 14، دسمبر 2023 ئ￿ کو حتمی حلقہ بندیاں شائع کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت حلقہ بندیوں میں مدد اور خدمات انجام دینے والے افراد کیلئے ہدایات کی ایک فہرست جاری کی تاکہ آئین کے آرٹیکل 218 (3 ) کے مطابق انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے، دیکھا جائے تو بحیثیت ایک ادارے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے ، لیکن پی ڈی ایم کی حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 ء کو مشترکہ مفادات کونسل میں منظور کر کے 90 دن کی آئینی مدت میں الیکشن کے انعقاد کو تاخیر کا سبب بنا دیا ہے۔
سرِ دست ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کے انعقاد اور عوام میں جانے سے کترا رہی ہیں ، اتحادی حکومت مہنگائی کو قابو کرنے میں بْری طرح ناکام ہوئی اور روزمرہ کی اشیاء خوردنی میں بد حواس کن اضافہ عوام میں غیظ و غضب کا سبب بنا ، مسلم لیگ (ن) عوامی غصے کو معتدل ہونے تک الیکشن میں جانے کیلئے وقت چاہتی ہے ، پاکستان پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ میں کسی بھی سیاسی اتحاد سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتی لیکن سندھ کے بڑے شہروں کراچی ، حیدا آباد ، سکھر ،نواب شاہ میں پیپلز پارٹی کے مدِ مقابل سیاسی اتحاد پریشانی کا باعث ہیں اورپیپلز پارٹی کو پنجاب ، بلوچستان ، اور خیبر پختونخوا میں پارٹی کو مستحکم کرنے کیلئے وقت درکار ہے ، پی ٹی آئی 9 مئی کے واقعات کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، اور پارٹی چیئرمین پابندِ سلاسل ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کسی معجزے کے انتظار میں ہے اور الیکشن فی الفور ہونے کے حق میں نظر نہیں آتی ، باقی سیاسی و مذہبی جماعتیں ’’ دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کے فارمولے پر اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کے سیاسی میدان سے باہر ہونے کی صورت میں سیاسی جوڑ توڑ کا فائدہ حاصل کر سکیں۔ 
دیدہ و دانا لوگ جانتے ہیں کہ الیکشن سیاسی جماعتوں کی منشاء پر مؤخر نہیں ہو سکتے ، اس میں ان منصوبہ سازوں کی حکمتِ عملی کار فرما ہے جنہوں نے 2018 ء کے الیکشنوں میں ایک ناتجربہ کار اور غیر سیاسی پارٹی کو حکومت میں بٹھایا تھا ، اب ان منصوبہ سازوں نے اپنی غلطی کا ادراک کرنے کیلئے جو منصوبی بندی کی ہے اسکے مطابق انہیں بھی وقت درکار ہے ، لہذا ایک گھڑے سے دوسرے گھڑے کو بھرنے اور اسے استحکام دینے کیلئے ایک نیا راستہ اپنایا جا رہا ہے ’’جسے استحکام پاکستان پارٹی ‘‘ کے نام کا لبادہ دیا گیا ہے ، یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ انتخابات سے قبل کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ سے نیا سیاسی اتحاد قائم کیا جاتا ہے ، یا نئی پارٹی بنا دی جاتی ہے ، 2018 ء کے عام انتخابات سے پیشتر مسلم لیگ (ن) میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور صوبہ بلو چستان میں ایک نئی پارٹی ’’ بلوچستان عوامی پارٹی ‘‘ وجود میں آ گئی، اسی طرح جنوبی پنجاب میں ’’ صوبہ محاذ اتحاد ‘‘ بنایاگیا جو کہ بعد اذاں پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا ، یہ مماثلت ظاہر کرتی ہے کہ جیسا سیاسی جوڑ توڑ 2018 ء کے انتخابات سے قبل عمل میں آیا تھا ، ویسا ہی کچھ عمل موجودہ حالات میں جاری ہے جس کی تکمیل کیلئے منصوبہ سازوں کو وقت درکار ہے۔لاہور ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں کرانے کے نو ٹیفیکیشن کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ملک میں 90 دن میں الیکشن کروانے کا حکم صادر کیا جائے ، عدالت نے استفسار کیا کہ ’’ صدر نے الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی اگر صدر نوے دن میں الیکشن کی تاریخ دے دیتے تو صورتحال مختلف ہوتی ، ، مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس الیکشن کی تاریخ ہی نہیں ہے ، اگر حلقہ بندی کو ایک مخصوص وقت کے اندر مکمل کر بھی لیا جائے ، تب بھی الیکشن کی تاریخ نہیں ہے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مصداق صدر صاحب نے عدالت کے ریمارکس دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ،چیف الیکشن کمشنر نے صدر مملکت کو آئینی دفعات اور الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ کی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پارلیمنٹ کی اس ترمیم کے تحت اب الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ 
 حکومتی اتحاد کا نئی مردم شماری کی طے شدہ مقرر وقت پر منظوری اور صدر مملکت کا الیکشن کمیشن کو خط نہ لکھنا سوچی سمجھی حکمتِ عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈر الیکشن کے انعقاد میں تاخیر چاہتے ہیں لیکن قوم کو سیاسی سراب کے پیچھے دوڑاکر انتخابات کا سیاسی لارا لپہ دے رہے ہیں ، سرِ دست الیکشن کی تاریخ دور است۔

مزیدخبریں