گزشتہ اتوار کو نوائے وقت میں شائع ہونے والے میرے کالم ’’کمال سالار پوری‘‘ پرجہاں کئی تعریفی اور توصیفی رد عمل سامنے آئے وہاں جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کے نائب مدیر جناب سلیم منصور خالد کا ایک شکایتی خط بھی موصول ہوا۔ تاہم میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے نہ صرف اس خاکسار کے لئے قابل قدر کلمات کہے بلکہ جناب کمال سالارپوری مرحوم و مغفور کے لئے لائق رشک احترام و تعظیم کا اظہار کیا جو ان کی عالی ظرفی کا مظہر ہے۔
جناب سلیم منصور خالد کا گرامی نامہ قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
محترم جناب جمیل اطہر قاضی صاحب!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور ہمت عطا فرمائے، آپ پاکستانی صحافت کی تاریخ کا قابل قدر ماخذ اور اس کے امین ہیں۔
میں آپ کی تحریریں والہانہ شوق سے پڑھتا ہوں اور بالخصوص آپ کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب۔ آج (20 اگست 2023ئ) کے نوائے وقت میں آپ نے محترم کمال الدین سالار پوری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں اپنی یادداشتوں کا ایک گوشہ عطا فرمایا۔ کمال صاحب، اسلامی تہذیب و اخلاقیات کا ایک با کمال مظہر تھے۔ ان کی درویشی میں وقار اور اسلام سے کمٹ منٹ میں جرات غالب تھی۔ ہم ایسے خودروں کے ساتھ شفقت کی جوئے رواں تھے۔آپ کے نثر پارے نے ان کا سراپا نگاہوں میں دوڑادیا، لیکن محترم جمیل صاحب اس میں آپ کے ایک جملے اور اس سے پیدا ہونے والے تا ثر کی مناسبت سے چند معروضات پیش کررہا ہوں، براہ کرم ان پر غور فرمائیے۔
اس میں جو ناقابل فہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ’’قاضی حسین احمد صاحب نے انہیں دفتر طلب کیا اور حکم دیا کہ فوری طور پر بوریا بستر اٹھائیں اور مرکز جماعت (منصورہ) سے نکل جائیں۔‘‘
محترم اطہر صاحب، اس مناسبت سے عرض ہے کہ جب اپریل 1994 ء میں ماڈل ٹائون اجلاس کرکے ان بزرگوں نے جماعت سے علیحدہ اپنا نظم بنایا تو اس کا امیر محترم نعیم صدیقی صاحب کو مقرر کیا۔ نعیم صاحب اس وقت جماعت ہی کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ان کو ایسا کوئی چھوڑ جانے کاحکم نہیں دیا گیا، تاہم چند ماہ بعد وہ خود وارث کالونی نقل مکانی کرگئے۔
پھر وہیں پر جناب عبدالغنی فاروق صاحب رہتے تھے اور وہ بحث مباحثہ کے لئے مسجد میں اور مسجد سے باہر سڑک پر ایک طرح سے مورچہ لگاتے تھے، مگر ان کو ان کی رہائش گاہ چھوڑ کر نکل جانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ حالانکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ 1995 ئ کی سردیوں میں فجر کے وقت ان کی بائیسکل گم ہوگئی تو انہوں نے بلند آواز میں مسجد کے باہر کھڑے زور زور سے کہنا شروع کیا، یہ سب قاضی (صاحب) نے کرایا ہے ، اور جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو محترم قاضی صاحب خاموشی سے یہ سنتے ہوئے اور بغیر کسی رد عمل کے ، اپنے گھر چلے گئے۔ اسی طرح متعدد حضرات منصورہ میں رہ کر قاضی صاحب کی باقاعدہ ’’گوشمالی‘‘ کرتے تھے، ان سب کو تو قاضی صاحب نے نہ نکالا۔ اس تناظر میں یہ بات مبالغہ آمیز ہے۔
البتہ یہ ممکن ہے جب اس تنظیم کے جمہوریت پسند اور حریت فکر کے شیدا حضرات گرامی نے محترم نعیم صدیقی صاحب کو پندرہ ماہ بعد زچ کرکے اس تنظیم کی امارت سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو پھر کمال سالار پوری صاحب کو، ان کی مرضی کے بغیر اپنا امیر بنالیا۔ اس وقت وہ منصورہ میں غالباً کرائے کے یا ذاتی گھر میں رہتے تھے۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ کہا گیا ہو ’’ یہ مناسب نہیں لگتا کہ ایک جگہ دوسرے مرکز سے وابستگان بھی آئیں اور بحث مباحثے کی بدنما صورت میں ڈھل جائیں۔‘‘ ایسا مشورہ کسی آمریت، دھونس یا جارحیت کا پہلو نہیں رکھتا بلکہ سمجھ داری کا پتا دیتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ان دو تین برسوں کے دوران میں ، جماعت اسلامی اور خاص طور پر قاضی صاحب پر نواز شریف ذریت پنجے جھاڑ کر حملہ آور تھی۔
آپ کے سامنے ان گزارشات کو پیش کرنے کا مقصد درست تناظر پیش کرنا ہے۔ امید ہے آپ ناگوار محسوس نہیں کریں گے۔
والسلام سلیم منصور خالد
نائب مدیر ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن
منصورہ، لاہور
اس تبصرہ پر تبصرہ کے ضمن میں عرض ہے کہ میں خود قاضی حسین احمد کا بہت مداح رہا ہوں اور وہ بھی میری قدر افزائی کرکے مجھے ممنون احسان کرتے رہے ہیں، میں نے ان کے حوالے سے جو فقرہ اپنے کالم میں سپرد قرطاس کیا ہے۔ اللہ گواہ ہے میں نے کمال سالار پوری مرحوم کی زبان سے اسی طرح سنا تھا کسی اور ذریعہ سے پڑھا یا سنا نہیں، اس کے آگے بھی کچھ باتیں تھیں جو خوف فساد خلق کے اندیشہ سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا، کمال سالار پوری کے تذکرہ میں اس واقعہ کاذکر ایک تاریخی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کامقصد قاضی صاحب کی توہین اور تضحیک ہرگز نہیں ہے۔ محترم مکتوب نگار کو اس کا مفہوم سمجھنے اور جاننے کے لئے فکر مند نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان کی فکر مندی کے لئے کالم میں اور بھی بہت کچھ تھا جس پر ان کی توجہ مرکوز نہیں ہوسکی۔ میں یہ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کمال سالار پوری جیسا شخص جس نے اپنی ساری زندگی مولانا مودودی کے نصب العین کی آبیاری اور جماعت اسلامی کی تحریک اقامت دین کی سربلندی کے لئے وقف کئے رکھی اس کا مقام قاضی حسین احمد سے زیادہ نہیں تو ان کے مقام و مرتبہ سے کم بھی نہیں تھا کاش ایسا ناقابل فہم واقعہ پیش نہ آیا ہوتا۔
اسی طرح نوائے وقت اور تکبیر کے ذریعے نواز شریف ذریت کے جماعت اور قاضی صاحب کے خلاف پنجے جھاڑ کر حملہ آور ہونے کا تبصرہ بھی اس مکتوب کا حصہ نہ بنتا تو اچھا ہوتا۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں سے جس شائستگی کی توقع کی جاتی ہے میری ناچیز رائے میں یہ رد عمل اس معیار پر پورا نہیں اْترتا۔