دو سال قبل چھپنے والی سوانح حیات ’’ ارشاد نامہ ‘‘ اس لحاظ سے تہلکہ خیز ثابت ہوئی کہ دو سال تک اس پر ملک بھر کے تجزیہ کار ، قانون دان اور کالم نگار تبصرے کرتے رہے۔پاکستان میں مارشل لاوں کے تسلسل ، طویل قیام ، محلاتی نشیب و فراز سے عدالتی رموذ و اسرار تک کی طلسماتی پس پردہ کہانیوں سے پردے اْٹھاتی ہوئی ؛ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح عمری ’’ ارشاد نامہ ‘‘ اْن کی سوانح عمری کم اور پاکستان میں فی الوقت آخری فوجی اقتدار کی عدالتی تاریخ رقم کرنے کی ہوشْربا داستان زیادہ ہے۔
اس لیے اس پر تبصرے کرتے وقت سابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد ، سابق قائم مقام صدر پاکستان اور چیرمین سینٹ وسیم سجاد ، دانشور ، تجزیہ نگار جناب سعید آسی ، اعتزاز احسن ، ایس ایم ظفر ، اور قیوم نظامی سمیت دیگر نے اْن کے اس اہم ترین فیصلے کو ہی زیر موضوع رکھا ہے، جس میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل پرویز مْشرف کے فوجی اقتدار کو آئنی تحفظ فراہم کرتے ہوئے ؛ تین سال کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کر دیا تھا۔
’’ ارشاد نامہ ‘‘ کے مْندرجات
اور اس پر چھپنے والے تبصروں سے بظاہر یہی تاثر اْبھرتا ھے کہ ؛ بندوق کی نوک پر دئیے جانے والے عدالتی فیصلے ، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی اقتدار کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جن کی ابھی تک آخری کڑی ظفر علی شاہ کیس میں جنرل پرویز مشرف کو تین سال کی آئنی مدت فراہم کرنا بھی ہے۔
لیکن ’’ ارشاد نامہ ‘‘ کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو قانون اور صحافت کے طالب علموں پر یہ راز بھی آشکار ہو گا کہ ؛ کسی مْنصف کے فیصلوں پر قانون کے ساتھ ساتھ اْس کی ذاتی شخصیت اور آئیڈیالوجی بھی گہرا اثر رکھتی ھے۔ اور اسکے لیے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی شخصیت کی پرتیں کھولیں تو ؛ وہ بطور جج کسی فوجی ڈکٹیٹر سے زیادہ مرد آہن نظر آتے ھیں۔ جس کی مثال بطور وزیر قانون جناب وسیم سجاد نے بھی دی ہے۔ جب جنرل ضیاالحق کے دور میں ارشاد حسن خان وفاقی سیکرٹری قانون تھے تو جنرل ضیاالحق نے وسیم سجاد کو وفاقی وزیر قانون کا منصب دیتے ھوئے واضح کیا کہ وہ کوئی اور سیکرٹری قانون تلاش کر لیں۔ اسکی وجہ ارشاد حسن خان کا ججوں کی تقرری کے معاملے پر جنرل ضیاالحق سے اختلاف کرنا تھا۔
اسی طرح جنرل پرویز مْشرف سے بھی اْنکے سخت موقف کے متعدد واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 2002ء کے انتخابات میں اِنہوں نے بطور چیف الیکشن کمشنر ، جنرل پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف جنرل حامد جاوید کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ کاغذات نامزدگی کے لیے کچھ دن بڑھا دئیے جائیں اور بعد میں سیاست دانوں کے مشورے سے وہ دن بڑھا بھی دئیے گئے ، جس سے میاں نواز شریف کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا موقع مل گیا تھا تو جنرل پرویز مشرف نے انہیں میٹنگ کے لیے بْلا لیا اور میاں نواز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ،،، آپ کسی کے زیر اثر ہیں جو ھمارے کہنے پر کاغذات نامزدگی کی مدت نہیں بڑھائی لیکن کسی اور کے کہنے پر بڑھا دی ہے۔ارشاد حسن خان کہتے ہیں کہ جنرل صاحب کی اس بات پر مجھے غْصہ آ گیا اور میں نے بھی اْنہی کی طرح بلند لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ آپ نے وردی پہن رکھی ھے اور آپ کے پاس بندوق بھی ھے۔۔۔ اگر میں آپ کے زیر اثر نہیں تو پھر کسی اور کے زیر اثر کیسے ہو سکتا ہوں۔
معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے بھی ’’ ارشاد نامہ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی امریکی صدر بل کلنٹن سے اْس ملاقات کا حوالہ دیا ہے جس میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں بل کلنٹن کو کہا کہ میں بطور چیف جسٹس کبھی بھی جنرل پرویز مشرف کو اپنے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں دوں گا اور نہ ہی انہوں نے پہلے کبھی مداخلت کی ھے۔
اس سے یہ بات تو کلیئر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو تین سال کی آئنی مدت دینا فوجی عدالتوں کے لیے رْکاوٹ اور تین سال میں الیکشن کرانے کی مدت کا پابند کرنے کا نظریہ ضرورت تو ہو سکتا ھے ، لیکن یہ نہیں ھو سکتا کہ جسٹس اشاد حسن خان نے وہ فیصلہ کسی دباو یا عہدے کے تحفظ کے لیے دیا ھو گا۔ کیونکہ وہ جج کی ذمہ داریوں کے لیے مْساوات اور خوف خْدا کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ وہ جج کی ذمہ داریوں کا تعین امام ابو حنیفہ کے قاضی کے لیے متعین ان خواص سے کرتے ہیں کہ ، مْنصف کو احساس ہونا چائیے کہ فیصلہ کرتے وقت اْس کی گردن ایک کْند آرے کی مانند ہو۔
اس سب کے باوجود ذاتی زندگی میں اِن کو میں نے انتہائی عاجز ، شفیق اور نرم خو انسان ہی پایا ہے جنہوں نے اپنی ان کتابوں کو دونوں بار بڑی محبت سے پاک پتن میں میرے ایڈریس پر مجھے بھجوایا۔
’’ ارشاد نامہ ‘‘ دانشوروں کی نظر میں ، بظاہر تو سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان کی ’’ سوانح حیات ‘‘ ہے جسے پہلے کی طرح فیروز سنز نے طباعت کیا ہے۔ لیکن اس کے دوسرے ایڈیشن میں اْن کی سوانح عمری کی جگہ وہ کالم اور تجزیے شامل کئے گئے ہیں جو ملک کے بڑے اخبارات میں
’’ ارشاد نامہ ‘‘ پر تبصرے کرتے ہوئے لکھے گئے تھے۔ اس لحاظ سے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن پاکستان میں کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی بھی ایک کتابی تاریخ مْرتب کر گیا ھے جس میں جناب مْجیب الرحمن شامی ، سعید آسی، حامد میر ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، مْسرت قیوم ، فضل اعوان ، اسداللہ غالب ، اسلم لودھی ، اثر چوہان سمیت 60 سے زائد بڑے کالم نگاروں کے کالم اس شہرہ آفاق کتاب کا حصہ ہیں۔ جن میں راقم الحروف تنویرساحر کے ’’ زہر خند ‘‘ کے لیے لکھے گئے دو کالم بھی شامل اشاعت ہیں۔