دراز قد، سادہ طبیعت، مثبت سوچ، درویشانہ انداز، دلفریب مسکراہٹ اور عموماً عوامی لباس میں ملبوس رہنے والے شاہد خاقان عباسی دیول، تحصیل مری کے باسی ہیں. ان کو سیاست کی پر خار اور دشوار گزار راہوں کا حادثاتی طور پر راہی بننا پڑا. اگر وہ سیاست میں نہ آتے تو شاید ان کا شمار پاکستان کے دولتمند اور امیر ترین پاکستانیوں کی فہرست میں ہوتا.۔
1988ء میں بطور ایم این اے، اپنی سیاست کی ابتدا کرنیوالے شاہد خاقان عباسی اگست 2017ء سے لے کر مئی 2018ء تک پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر متمکن رہے۔ نواز شریف کی ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے نااہلی پر ان کو غیر معمولی حالات میں اکیسویں وزیراعظم کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور منفرد اندازِ سوچ کے بل بوتے پر اس وقت کی منہ زور ہواؤں کا تدبر اور حکمت سے سامنا بھی کیا اور گنجلک حالات میں اپنی پارٹی قیادت سے بھی مخلص رہے. اِسی جرمِ وفا میں وہ پی ٹی آئی کے دور میں ایک لمبا عرصہ نیب کی حراست میں رہے۔
ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیاست دانوں میں سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرنے والے رکن پارلیمنٹ ٹھہرے. وسیع مطالعہ کے حامل، احساسِ کمتری و برتری سے پاک اور تَصَنّع سے بے نیاز شاہد خاقان عباسی نے دونوں بیٹوں کی شادیاں انتہائی سادگی سے کیں. ایک بیٹے کی شادی کے وقت وہ وزیر اعظم پاکستان تھے. وہ چاہتے تو دیگر سیاست دانوں کی طرح انتہائی ٹھاٹھ باٹھ سے شادی کرتے اور کروڑوں مالیت کے تحائف اور سلامیاں وصول کرتے. مگر انہوں نے انتہائی قریبی عزیزوں کو مدعو کرنے پر اکتفا کیا. انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کی بجائے اپنی رہائش گاہ پر رہنا پسند کیا اور غیر ضروری پروٹوکول لینے سے پرہیز کرتے رہے.
وقت کی سوئیوں کے بے ربط ہونے کی وجہ سے جب ان کی گرفتاری لازمی ٹھہری تو انہوں نے ببانگ دہل مقدمات کا سامنا کرنے، ضمانت نہ کرانے، وکیل نہ کرنے اور اپنی وزارت کے کسی افسر کو قربانی کا بکرا نہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کے قول و فعل میں واقعی کوئی تضاد نہیں دیکھا گیا کیونکہ انہوں نے کوئی کام ملکی مفاد کے خلاف کیا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے جیل باوقار اور ثابت قدمی سے کاٹی۔
موجودہ فرسودہ نظام سے مایوس ہونے کی بنا پر وہ ملک میں جاری سیاسی تنزل اور معاشی بدحالی پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور ملکی مسائل کا سبب سیاسی، جوڈیشل اور ملٹری لیڈر شپ کی مشترکہ ناکامی کو قرار دیتے ہیں. تمام ملکی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے قائل ہیں. اکثر ٹروتھ کمیشن قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟
بسا اوقات یہ لگتا ہے کہ ان کی صاف گوئی اور نیک ارادے سے کی گئی باتیں پارٹی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتیں انہوں نے پارلیمنٹ کو پاکستان کی تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نون کو حکومت کے فیصلوں کا بوجھ اٹھانا پڑیگا. انہیں گزشتہ پانچ سال کی قانون سازی میں ایک بھی قانون عوام کے لیے نہ بنائے جانے پر بھی قلق ہے. ان کے نزدیک اب عوام کا حکومت کے نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور اب یہ نظام الٹے سیدھے قوانین بنانے سے نہیں، عمل سے درست ہوگا۔ بجلی کے حالیہ بحران کی وجہ کالاباغ ڈیم کا نہ بننا بتاتے ہیں. انہوں نے اسمبلی اجلاس میں برملا کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے ممبران ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو پھر دوسروں پر ٹیکس کیسے لگائیں گے؟ عدلیہ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے، قانون بنانا نہیں. قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے. انہوں نے کہا کہ روایت بن گئی ہے کہ ہر وزیر اعظم جیل جائے گا.
یکم اگست 2023 کو ان کی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہ پر ملنے کا اتفاق ہوا. سیاسی و غیر سیاسی معاملات پر تفصیل سے بحث ہوئی. بتانے لگے کہ انہیں اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران تین بار سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا. ہر دفعہ سعودی حکومت کی جانب سے دعوت کے باوجود انہوں نے عمرہ ادا کرنے سے دانستہ گریز کیا.
تیسری دفعہ تشویش یا تجسّس میں مبتلا سعودی ولی عہد نے وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا، "میں ماضی میں سعودی عرب میں قیام کے دوران عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کر چکا ہوں. اب اگر میں عمرہ ادا کرتا ہوں تو میرے سرکاری پروٹوکول کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو دقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور میں اپنی ذات کی خاطر لوگوں کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا".
مذہب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے ہاں سادہ اور عام فہم مذہب کو بہت پیچیدہ اور مشکل بنا دیا گیا ہے. ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران وہ ایک دفعہ نماز کی ادائیگی کے لئے رکے. نماز ادا کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ایک بدو نے مخصوص ترش انداز میں ہمارا تعارف جاننا چاہا. اسے بتایا گیا کہ مسافر ہیں، ادائیگیء نماز کے لئے رکے تھے. وہ کہنے لگا اگر مسافر ہو تو پوری نماز کیوں پڑھی؟ ہم نے جواب دیا کہ زیادہ ثواب کی غرض سے. اس نے لہجے میں مزید ترشی لاتے ہوئے کہا کہ حضوریادہ علم رکھتے ہیں یا تم؟
کہنے لگے کہ ایک دفعہ پاکستان کے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے یونیورسٹی میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک تاریخ کے ایک غیر ملکی گورے پروفیسر سے ان کی ملاقات ہوئی. انہیں اندازہ ہوا کہ پروفیسر کا پاک و ہند کی تاریخ کے بارے میں مطالعہ بہت وسیع تھا. پروفیسر نے بتایا کہ دنیا کی تاریخ میں آزادی کی منزل حاصل کرتے وقت انسانی جانوں کا ضیاع سب سے زیادہ تقسیمِ ہند کے وقت ہوا تھا. بنگالیوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے اور قیامِ پاکستان کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا.
آبادی کے لحاظ سے بنگال بڑا صوبہ تھا مگر انتخابات جیتنے کے باوجود جب بنگالیوں کو حکومت سازی نہ کرنے دی گئی تو وہ 1971ء میں علیحدہ ہو گئے. یہ عالمی تاریخ کا دوسرا انوکھا واقعہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی".
ایک دفعہ مجھے ان کے دفتر میں ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ ہونے والی تقریباً چالیس پینتالیس منٹ دورانیے کی میٹنگ میں شرکت کا اتفاق ہوا. بحیثیت وفاقی وزیر ا نہوں نے بریفنگ اور اوپن ڈسکشن میں نوٹس اور عملے کی معاونت کے بغیر فی البدیہہ اظہارِ خیال کیا۔ ان کا قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ غضب کا حافظہ اور بلا کا اعتماد بہت متاثر کن تھا.
وزارت سے متعلق تمام اعدادوشمار اور معلومات پر ان کو مکمل دسترس حاصل تھی… تو کیا "آر ٹی ایس" کو ایک درویش منش سے سیاستدان کی اتنی منفرد خوبیوں کے صدقے کم از کم ا ن کے حلقے میں 'بیٹھنے' پر ندامت نہیں ہونی چاہیے تھی؟ ڈائین بھی، سنا ہے، سات گھر چھوڑ دیتی ہے.