پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا اور اس جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے ناصرف پاکستان کو کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا بلکہ ستر ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔ آج دنیا دہشتگردوں سے کسی حد تک محفوظ ہے تو اس دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں برسوں سے لکھتا آ رہا ہوں۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت بھی اس کا اظہار ضرور کرتی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی تھی اور پاکستان دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں ناصرف بے پناہ قربانیاں دی ہیں بلکہ پاکستان نے اپنی ترقی پر بھی سمجھوتہ کیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی قربانیوں کے بعد دنیا پاکستان کا ساتھ دیتی اور جنگ سے آنے والی تباہی اور تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرتی لیکن دنیا نے ایسا کرنے کے بجائے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے کتنا نقصان برداشت کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر مس جین میریٹ نے حقیقت کو دنیا کے دامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے موقف کی تائید اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ "پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے کر پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم ترین اتحادی اور فرنٹ لائن ملک ہے۔ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشتگرد جماعتوں کی کارروائیوں پر گہری تشویش ہے۔ طالبان، حقانی گروپ، دوسری تنظیموں کو قابو کریں، افغانستان میں دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو یہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے لیے خطرہ ہوں گے۔ افغانستان کے آدھے حصے میں انسانی صورتحال اور خاص طور پر خواتین کو حقوق نہ دیے جانے پر تشویش ہے۔" برطانوی ہائی کمشنر کے یہ الفاظ یقینی طور پر ہمارے ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو ہر وقت افواج پاکستان لو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ برطانوی ہائی کمشنر کا یہ بیان بنیادی طور پر حکومت برطانیہ کا اصولی موقف ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب پاکستان نے دنیا کو دہشتگردی سے بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے تو پھر جن کے لیے ہم نے قربانیاں دی ہیں ان کی بھی کچھ ذمہ داری ہے یا نہیں۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی یے تو اس کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ہے جنہیں بچانے کے لیے ہم لڑتے رہے ہیں۔ اب پاکستان کو تجارت کی ضرورت ہے، ہمیں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مدد درکار ہے۔ انڈسٹری کے لیے مدد درکار ہے۔ دنیا کو دہشتگردوں سے بچاتے بچاتے پاکستان کی معیشت شدید متاثر اور ترقی کا سفر رکا رہا ان حالات میں دنیا پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا وہ اس کا بین ثبوت ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ بہرحال محترمہ جین میریٹ نے کم از کم دنیا کو یہ ضرور بتایا ہے کہ اگر آج دنیا میں امن ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان بھی ہے۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے نوے دن میں انتخابات کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ شیری رحمان کہتی ہیں کہ آئین کے تحت نوے دن میں انتخابات ہونا ہیں، اس سے آگے گئے تو آئینی بحران پیدا ہوجائیگا۔ الیکشن میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہے، آئین میں تبدیلی نگران حکومت کی صوابدید نہیں، نہ ہی اس کے پاس قوانین میں تبدیلی کا مینڈیٹ ہے۔ الیکشن کمیشن سے ملاقات کے بعد سی ای سی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ممکنہ تاخیر کا غم لگا ہوا ہے۔ اس سے پہلے وہ کتنے ہی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ دہائیوں تک سندھ پر حکومت کرنے اور مسلسل انتخابات جیتنے کے بعد حکومت بنانے سے سندھ کے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ کیا دو ہزار دو سے دو ہزار اٹھارہ تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان سے ملک کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ انتخابات میں تاخیر سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خطرہ تو یے لیکن دہائیوں سے غربت کی چکی میں پسنے والوں کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ آج بھی سندھ کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کراچی کو دیکھ لیں سیوریج کا کوئی نظام نہیں، پینے کے پانی کا مسئلہ اپنی جگہ ہے، ٹرانسپورٹ کا بڑا حال ہے اور سب سے بڑھ کر بدامنی عروج پر ہے۔ سندھ کے لوگوں کو انتخابات کی اس سے بڑی سزا کیا مل سکتی ہے۔ جتنی شدت کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابات میں تاخیر پر اعتراض ہے کاش اتنی تکلیف کے ساتھ وہ حکومت بھی کرتے۔ پچیس تیس سال کچھ کم نہیں ہوتے اس عرصے میں لوگ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں ایک کراچی اور سندھ والے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بدولت آج بھی بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہیں۔ ملک کے لیے انتخابات ضروری ہیں یا معاشی استحکام اہم ہے۔ سندھ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بجائے حقیقی ترقی کی ضرورت ہے۔ حقیقی خدمت سے ہی سندھ اور کراچی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جو ظلم سندھ کے لوگوں پر کیا ہے پہلے اس کا حساب دے نئے انتخابات کی بات بعد میں کرے۔ اصل مسئلہ تو حکومت سے دور رہنے کا ہے۔ حکومت سے دور رہنا مشکل ہے۔ شیری رحمان اور ان کے ساتھیوں کو اپنی حکومت کے بجائے سندھ کے کروڑوں لوگوں کے بہتر مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔ اپنے لیے تو اب تک بہت کچھ کر چکے ہیں کچھ کام عام آدمی کے لیے بھی کر دیں۔
آخر میں کلیم عثمانی کا کلام
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے بحر و بر تمہارے ہیں
کِہکشاں کے یہ جالے رہ گزر تمہارے ہیں
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی اْمیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
میرِ کارواں ہم تھے روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بْلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے