تجا ہلِ عا رفانہ           یہ دُنیا اگر مِل بھی جائے تو کیا ہے۔۔۔

ڈاکٹرعارفہ صبح خان              
ہر پاکستانی شارٹ کٹ میں لگا ہوا ہے۔ ہر پاکستانی راتوں رات امیر ہونا چا ہتا ہے۔ ہر پاکستانی کچھ کئیے بغیر عزت دولت شہرت حا صل کرنا چا ہتا ہے۔ ہر پاکستانی اپنی عمر دو سے بارہ سال تک کم بتاتا اور کم لکھواتا ہے۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ دنیا کے ہر آدمی کو اگر طبعی عمر میں مرنا ہے تو مغرب میں لوگوں کی طبعی عمر70 سال ہے جبکہ ہمارے جیسے ممالک مثلاً پاکستان انڈیا بنگلہ دیش سری لنکا افغانستان جیسے ممالک میں اوسط عمر 60سال ہے اور پسماندہ ممالک میں اوسط عمر پچاس سال ہے۔ اس حساب سے وہ کروڑوں پاکستانی جو ساٹھ سال کے ہیں۔ وہ اب بونس پر چل رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستانیوں میں عمر چھپانے کا فو بیا بہت بڑھ چکا ہے۔ پہلے عمر چھپانے کی بیماری عورتوں میں تھی، اب یہ بیماری ہر پاکستانی کو لگ چکی ہے۔ اگر کوئی اپنی عمر چالیس سال بتاتا ہے تو لازماً اپنی اصل عمر کے مطابق پچاس سال کے لگ بھگ ہو گا۔ زندگی کے پانچ ادوار ہیں ۔ بچپن لڑکپن جوانی ادھیڑ عمری اور بڑھاپا۔ طبعی عمر کے لحاظ سے ہر دور 12سال پر مشتمل ہو تا ہے یعنی بارہ سال تک آپ بچے ہیں۔ 24سال تک آپ لڑکپن، 36سال تک جوانی 48سال میں ادھیڑ عمری اور 60سال میں بڑھاپا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بارہ سال کا دورانیہ بہت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ جتنی بڑی، وسیع، گہری یہ دنیا ہے اور کروڑوں سال سے ہے تو اس حساب سے ہر انسان کو دنیا میں کم از کم 200 سال کی عمر ملنی چا ہیے تھی تاکہ وہ ایک بار دنیا میں آیا تھاتو اچھی طرح انجوائے کر لیتا۔ دنیا کو اچھی طرح سمجھ لیتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو علم کا سمندر ہے۔ اُسکے مقابلے میں ہماری زندگی محض ایک قطرہ ہے۔ جو دنیا میں عیش و عشرت کے اسباب ہیں اور دولت کی طلب ہے۔ اُسکے مقابلے میں تو زندگی محض ایک  ”لمحہءنا پائیدار“ ہے۔ پھر بھی ہم نے اس مختصر ترین دورانیے کی زندگی کو مسائل کے گر انبار پہاڑوںمیں الجھا دیا ہے۔ زندگی کو گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ اس مُٹھی بھر زندگی کو جلن حسد عناد کینہ بغض اور سازشوں سے آلودہ کر دیا ہے۔ یہ چھوٹی سی زندگی کتنی زہر خند کر لی ہے کہ اوپر سے ہنستے ہیں تو اندر سے دل رُو رہا ہوتا ہے۔ محبت پاشی کے پس منظر میں نفرتوں کے بادل ہو تے ہیں۔ ہم سب بہت کم وقفے کے مہمان ہیں اور اس میں امیر غریب، مسلمان غیر مسلم، صحت مند بیمار، طا قتور کمزور کی کو ئی تخضیص نہیں ہے۔ جو غریب ہو تے ہیں۔ اکثر لمبی عمر جیتے ہیں جو بیمار یا لاغر ہو جائیں۔ وہ طویل حیات کے مالک بن جاتے ہیں جو ہٹے کٹے ہو تے ہیں۔ ایک جھٹکا نہیں سہہ پاتے اور لقمہءاجل بن جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے نا پا ئیدار شے زندگی ہے اور ہم اسی ناپائیدار زندگی کے لیئے جینے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں گو یا ہم نے مرنا ہی نہیں۔ وُہی کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ زندگی کی چند دہائیوں کے لیے برسوں بلکہ صدیوں برابر دولت اکھٹی کر لیتے ہیں۔ خا ص طور پر وہ لوگ جو اپنی سات نسلوں کے لیے جا ئیدادیں، اثا ثے، مال و دولت چھوڑ جاتے ہیں۔ خا ص طور پر ہمارے حکمران، سیاستدان، جاگیردار، زمیندار، تا جر، بیوروکریسی۔۔۔۔سو چنے کی بات ہے کہ کیا اُنکی آنیوالی نسلیں اپا ہج معذور پاگل غبّی یا لولی لنگڑی ہو نگی جو یہ لوگ دوسروں کا حق مارکر اپنی نسلوں کو متمول کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپکے بچے آپکے مرنے کے دو چار سال تک صرف عید بقر عید پر آپکی قبروں پر فا تحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ یہ رواج بھی ابھی ربع صدی تک قا ئم ہے۔ اُسکے بعد بچے دفنا کر زیادہ سے زیادہ چہلم تک دو تین مرتبہ قبر پر آیا کریں گے۔ مجھے کو ئی ایک بندہ بتائیے جو اپنے دادا یا پرپردادا کی قبر پر فا تحہ پڑھنے جاتا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر اولادوں کو اپنے پردادا یا نگڑ دادا کا نام تک معلوم نہیں ہوتا حالانکہ اُسی پردادا نے مار دھاڑ ، غبن، بد دیانتی،ملاوٹ، رشوت اور ناجائز ذرائع سے دولت کے انباراپنی انھی نسلوں کے لیے چھوڑے ہو تے ہیں۔ اپنی عا قبت بگا ڑی ہو تی ہے اور اپنا ایمان بیچا ہو تا ہے۔ اپنا کردار دا غداد کیا ہو تا ہے اور نجانے کتنے مستحق لوگوں کی بد دعا ئیں لی ہو تی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ اتنی دولت ذخیرہ کر لی ہے کہ قا رون کا خزانہ بھی مات کر دیا ہے۔ راتوں رات دولت کبھی جائز ذرائع سے حا صل نہیں ہوتی۔ قا رون کا خزانہ بھی خاک ہو گیا تھا اور ابھی ڈیڑھ دو سال قبل جو عرب ملک کا امیر کبیر سربراہ مرا تو اُسکا بستر ، ملبوسات کرسیاں میزیں، گھر گا ڑی کرا کری حد تو یہ ہے کہ باتھ روم تک سونے کا تھا۔ اُسکے پاس زرو جواہرات کے انبار تھے۔ جب مرا تو مٹی کی قبر میں گیا۔ اب شاید اُسکی قبر پر اُسکی آل و اولاد جا کر پھٹکتی بھی نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو تا ریخ اور عصرِ حا ضر کے ان وا قعات سے سبق سیکھنا چا ہیے ۔ انسان صرف اپنی اولاد کا ذمہ دار ہو تا ہے کیونکہ وہ اولاد کو اپنی مرضی سے دنیا میں لاتا ہے لہذا جس روح کو اللہ نے آپکے گھر پیدا کیا ہے ۔ اُسکی کُلی ذمہ داری آپ پر عائد ہو تی ہے۔ اولاد کی اولاد کیونکہ آپکی آنکھوں کے سامنے پیدا ہوتی ہے۔ آپکا خون اُنکے جسم میں گردش کر تا ہے اس لیے اُنکی محبت میں انکے لیے بھی انسان اُسی طرح تڑپتا ہے لیکن اسکے بعد کی نسلوں کی ذمہ داری آپکے کندھوں پر نہیں ہوتی مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنی پانچ یا سات نسلیں نہیں، کم از کم ایک درجن نسلوں کی عیاشی کے لیے ہر پاکستانی کا خون نچوڑ ڈا لا ہے۔ جن کی خاطر ہمارے حکمرانوں نے عوام کو نیم پاگل بنا دیا ہے۔ اُن نسلوں کو تو اُپکا نام بھی یاد نہیں رہے گا۔ وہ کبھی آپکے حق میں کلمہءخیر ادا نہیں کریں گے۔ آپ اپنی زندگی میں گناہوں کا زہر بھر رہے ہیں۔کرپشن کرکے غریب عوام سے بد دعائیں ، کوُسنے اور گا لیاں کھا رہے ہیں۔ افسوس کہ غریبوں کا حق مار کر اس دولت سے آپ نہ تو خوشی خریدنے پر قا در ہیں نہ سکون خرید سکتے، نہ بڑھاپے کو جوانی میں بدل سکتے اور نہ ہی سا نس مستعار لے سکتے۔ اس وقت ہمارے زیادہ تر حکمران اور سیاستدانوں کی عمریں 70سال سے زا ئد ہیں۔ اصل عمریں تو لگ بھگ 80برس ہیں یعنی اگر غور کریں تو ان دولت کے پُجاریوں اور اقتدار کے بُھوکوں میں سے پانچ سال بعد کو ئی بھی نہیں ہوگا۔پانچ یا دس سال عمریں گھٹانے سے کیا ہوتا ہے۔ پانچ یا دس بعد اس عمر کا سا منا کرنا ہی پڑتا ہے لیکن احساس کمتری اور ہوس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیںتھا۔ کچھ مرض لا علاج ہو تے ہیں جیسے حسد بغض جلن حِرص طمعٰ اورایج کمپلیکس۔ ویسے بھی اگر پاکستانیوں کی اوسط عمر 60کے بجائے 100برس بھی ہو جائے تو انہوں نے یہی کچھ کرنا ہے جو کر رہے ہیں۔ ویسے بھی جتنی چا ہے عمر سو، دو سو چا ر سو برس ہو جائے تب بھی بالآخر مرنا ہے اور یہ دنیا یا اس کی حکمرانی ، با دشاہت، خزانے مل بھی جائیں تو بھی با طن کا سکون اور طمانیت تو دولت یا طا قت سے نہیں خریدی جا سکتی۔ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...