پس آئینہ
خالدہ نازش
آج انسان یہ بات کہنے میں بالکل بجا ہے کہ اس نے بتدریج ترقی کی بہت سی منازل طے کی ہیں - وقت کے ساتھ ساتھ انسان زندگی کے ہر میدان میں آسانیاں پیدا کرتا چلا گیا - خبر کو ہی لے لیجیے ایک وقت تھا جب خبر اور معلومات کے بہت محدود ذرائع ہوا کرتے تھے - جن میں سب سے پہلا ذریعہ اخبار سمجھا جاتا تھا - قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں صرف دو یا تین اخبار تھے ، وہ بھی بہت کم لوگ پڑھتے تھے - اس طرح کسی بھی خبر تک رسائی بہت کم لوگوں کی ہوا کرتی تھی اور جب خبر تک رسائی ہی نہیں ہوتی تھی تو امور مملکت میں بھی لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہوا کرتی تھی- دوسری وجہ پاکستان کے شروع شروع میں چونکہ مارشل لا کا دور تھا اور مارشل لا میں صحافت آزاد نہیں ہوتی اس لیے کوئی مصدقہ خبر لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی تھی - خبر کا دوسرا ذریعہ ریڈیو تھا - ریڈیو بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا اور عام لوگوں تک پہنچنے میں اسے بہت وقت لگا - پھر ٹیلیویڑن آ گیا جسے خبر کی دنیا میں انقلاب سمجھا گیا کیونکہ اس میں خبر سننے کے ساتھ ساتھ خبر پڑھنے والے کو دیکھا بھی جا سکتا تھا - اگرچہ ایک ہی سرکاری چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا ، پھر بھی لوگ بہت شوق سے دیکھتے تھے - آہستہ آہستہ ٹیلیویڑن نے ہر گھر میں جگہ بنا لی - پھر کیبل ٹی وی چینل کا دور آ گیا - محتلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز آ گے، جنہوں نے دنیا کی ہر خبر تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا - اور پھر انٹرنیٹ ایک ایسی ایجاد جس نے پوری دنیا کو Reshape کر کے رکھ دیا -اس انقلاب کے بعد دنیا بالکل سمٹ گئی کوئی بھی خبر ہو منٹوں میں پوری دنیا میں وائرل ہو جاتی ہے - اب ہر ہاتھ میں موبائل فون کی صورت میں خبروں کی بھرمار ہے - ٹیلیویڑن کے تو ہم محتاج ہیں کوئی خبر دکھائے گا تو ہم تک پہنچ پائے گی ، مگر انٹرنیٹ پر ہر خبر ہر بندے کی دسترس میں ہے - ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 57 فیصد لوگوں نے ٹیلی ویڑن دیکھنا چھوڑ دیا ہے - انٹرنیٹ نے ہر میدان میں لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنا دیا ہے - کوئی خبر ہو ، کوئی واقعہ ہو ، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو رہی ہو لوگ فوراً ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال دیتے ہیں ، اور پھر وہ خبر وہ واقعہ پوری دنیا تک بھی پہنچ سکتا ہے - پچھلے دنوں شہر کی ایک بہت مصروف جی ٹی روڈ پر جہاں بے ہنگم ٹریفک اور افراتفری کا سماں تھا میرے ایک جاننے والے نے آنکھوں دیکھے واقعہ کی فوراً ویڈیو بنائی اور فیس ب±ک پر شئیر کر دی - میری طرف بھی وٹس ایپ کی اور کہا کہ میں دیکھ کر بتاو¿ں کہ اس میں غلطی کس کی تھی اس ویڈیو میں بہت سی عورتوں کو ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کرتے اور لڑتے دیکھا جا سکتا تھا - واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک صاحب کا روڈ کراس کرتے ہوئے شاپنگ بیگ کسی کی موٹر سائیکل کے ساتھ لگ کر پھٹ جاتا ہے جس میں پھل اور کچھ شاپنگ کا چھوٹا موٹا سامان تھا روڈ پر بکھر جاتا ہے ، وہ صاحب قریب سے جو چیزیں اٹھا سکتے تھے اٹھا کر چلے جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے ایک پورا جنگ کا محاذ کھڑا کر جاتے ہیں جو بھکارن عورتوں کے درمیان چیزیں اٹھاتے ہوئے شروع ہو جاتا ہے - ٹریفک رک جاتی ہے -روڈ پر گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے - ایک دوسرے سے چیزیں چھینتے ہوئے بات تھپڑ مکوں تک پہنچ جاتی ہے - ٹریفک پولیس آ جاتی ہے جس کے ہاتھوں ان عورتوں کی خوب دھلائی بھی ہوتی ہے اور پولیس وہ چیزیں بھی لے لیتی ہے جو اس واقعے کا سبب بنی تھیں - اب اگر یہ دیکھا جائے کہ غلطی کس کی تھی تو میری نظر میں پہلی غلطی تو روڈ کراس کرنے کے دوران شاپنگ بیگ پھٹ جانے والے ان صاحب کی تھی جو فلاءاوور اور انڈر پاس ہونے کے باوجود روڈ کراس کر رہے تھے - سگنل فری روڈ تھی جس پر گاڑیوں کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے - روڈ کراس کرنا کافی مشکل اور ریسکی ہوتا ہے - اس کے باوجود اگر ہم عجلت میں ایسی غلطی کرتے ہیں تو پھر ہم ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں - اور کسی بھی طرح کے حادثے کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں - پتا نہیں ہم پاکستانی قوم کو کس بات کی جلدی ہوتی ہے ، ہر طرح کے قاعدے قانون کو پھلانگ کر آگے نکل جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں - زندگی کے ہر کام میں ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں - ہر جگہ وہ کوئی پبلک پلیس ہو ، گاڑی یا جہاز میں سوار ہونا یا اترنا ہو ، کسی بنک کے سامنے کھڑے ہو کر کوئی بل جمع کرانا ہو ، ہسپتال میں ڈاکٹر کی اپوائنٹمنٹ لینی ہو ، ائیرپورٹ پر امیگریشن یا بورڈنگ کے لئے قطار میں کھڑے ہونا ہو یا شادی بیاہ میں کھانے کا اعلان ہوتے ہی بھگ دھڑ مچ جانا ایسے تمام موقعوں پر ہم بہت جلدی میں ہوتے ہیں - اور اپنے غیر مہذب ہونے کا ثبوت بھی دے رہے ہوتے ہیں - سمجھ نہیں آتی کس بات کی جلدی ہوتی ہے - وقت بچا کر کون سے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دینے ہوتے ہیں - تھامس ایڈیسن کی جلدی کی تو سمجھ آتی ہے جس کی تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ ایجادات ہیں جن میں سب سے بڑی ایجاد بلب ہے تیرہ سال کی عمر میں صبح کے وقت تیز تیز بھاگتا ناشتہ لینے جا رہا تھا ، دوست نے پوچھا بھاگ کیوں رہے ہو اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ اس نے جواب دیا زندگی بہت مختصر ہے اور مجھے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے - اور پھر اس نے ثابت کر دیا - اس واقعے میں دوسری غلطی روڈ پر سے چیزیں اٹھانے والی بھکارن عورتوں کی ہے ، کوئی بھی باعزت انسان ایسی حرکت سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے - لیکن کسی سوچ کا ایک دم ذہن میں ابھرنا اور پھر ذہن کا اس کام کو کرنے کی فوراً تحریک پیدا کرنا اور سیکنڈوں میں وہ کام کر گزرنا کافی تشویش ناک ہوتا ہے - اور پھر اس سے بھی بڑھ کر روڈ پر جہاں ارد گرد ہجوم ہو جھک کر کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا دیکھنے والوں کے لئے اور زیادہ تشویشناک ہوتا ہے - اس کی بھی جرآت کرنی پڑتی ہے - ایک باعزت انسان ایسی جرآت نہیں کر سکتا - مگر ایسی بھکارن عورتیں جنہوں نے عزت ، غیرت ، شرم و حیا سے مکمل آزادی حاصل کی ہوتی ہے ہر طرح کی ذلت کے لئے دستیاب ہوتی ہیں - پاکستان میں بھکاریوں اور نشئیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے - بازاروں میں سڑکوں پر ہر جگہ ایسی بھکارن عورتیں جو پیشہ ور بھکاری ہیں گزرنے نہیں دیتیں کپڑے کھینچتی ہیں - ان بھکاریوں اور نشئیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا - اگر سروے کیا جائے تو پاکستان بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں پہلے نمبر پر آ سکتا ہے - ویسے تو اس ملک میں لوگوں کی پکڑ دھکڑ کے لئے بہت کریک ڈاو¿ن ہو رہے ہیں مگر اصل جرائم کے خاتمے کے لئے جہاں پکڑ دھکڑ کی ضرورت ہے ایسے جرائم کو پھلنے پھولنے دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے تمام جرائم کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک ہوتا ہے ، ایک مافیا ان جرائم کی پشت پناہی کر رہا ہوتا ہے - ایکشن نہ لینے کی ایک وجہ بھیک مانگنے کو جرم نہ سمجھا جانا بھی ہو سکتی ہے - اگر یہاں بھی سعودی عرب کی طرح بھیک مانگنے اور بھکاریوں کی معاونت کرنے کو غیر قانونی اور قابلِ سزا جرم قرار دے کر کم از کم ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا جائے تو اس برائی پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے - مگر ہم نے تو آج اپنے ملک کو ہی اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے چلانے کے لئے ہمیں ملکی سطح پر آئی ایم ایف اور دیگر ملکوں سے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے - ایسے ملک میں بھکاریوں کا بھیک مانگنا کوئی بری بات نہیں ہے - اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انفرادی اور ملکی سطح پر غلامی کو چنا ہوا ہے - انفرادی طور پر تو سب سے پہلے ہم اپنی خودی کے غلام ہیں - یہ اقبال والی خودی نہیں ہے جو خود کو بلند کرنا سکھاتی ہے - یہ خودی ہمیں بزدل بناتی ہے - ہم خود پر اتنی پابندیاں عائد کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر خود کو بہت زیادہ آزادی دے دی تو کہیں خود سر ہی نہ ہو جائیں - یہ خودی کی غلامی ہمیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے سے بھی روکتی ہے - یہ ہمیں ہمارے مرتبے ہمارے عہدے کا غلام بنائے رکھتی ھے - کہیں ہم اپنے مفادات کی ، کہیں حالات کی ، کہیں رشتوں کی خیالات کی اور کہیں اپنی بات کی خواہ غلط ہی کیوں نہ ہو ہر معاملے میں ہماری چوائس صرف غلامی ہے - ملکی سطح پر بھی ہم نے عزت نفس ، غیرت ، خوداری اور شرم و حیا سے آزادی حاصل کی ہوئی ہے اگرچہ انسان کو ان الفاظ کا غلام بنایا گیا ہے اور جس نے ان الفاظ سے آزادی حاصل کر لی وہ جو چاہے کرتا پھرے - جن طاقتور ملکوں کی غلامی سے ہمیں آزادی حاصل کرنی چاہیے تھی وہاں غلامی کی زنجیروں میں خود کو جکڑ کے رکھا ہوا ہے اور ان زنجیروں کو توڑنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں قوم کے وسیع تر مفادات کو نہیں ایک خاص طبقے کے وسیع تر مفادات کو بہت بڑا دھچکا لگے گا جو اس ملک کو کسی صورت قبول نہیں - ہماری عمریں دن بدن کم ہو رہی ہیں مگر غلامی کی عمر دراز ہو رہی ہے جو لمحہء فکریہ ہے