پی ٹی آئی کا جلسہ موخر ہونے کے محرکات

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
تحریک انصاف کی طرف سے 22اگست کے جلسے کی مکمل تیاری کی جا چکی تھی۔ قافلے اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے کہ اچانک حکومت نے جلسے کی این او سی منسوخ کر دی اور عمران خان نے بھی جلسہ ملتوی کرنے کی اجازت دے دی۔عمران خان جیل میں تھے جہاں ان کے وکیلوں کو بھی جانے کی مشکل سے ہی اجازت ملتی ہے۔حتیٰ کہ ان کے دونوں بیٹوں اور عمران خان صاحب کی بہنوں کو بھی اعلیٰ عدالت سے دادرسی کی منظوری تک انہیں عدلیہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے جب کہ عمران خان صاحب کی بیگم اور سابق خاتونِ اول صاحبہ کو بھی علیحدہ پابندِ سلاسل رکھا ہوا ہے۔اور یہ سارا کچھ ماورائے آئین اور قانون پچھلے ایک سال سے ہو رہا ہے۔صحافیوں کو کبھی جانے دیا جاتا، کبھی روک دیا جاتا ہے لیکن اس جلسے کی منسوخی کے لیے عمران خان سے اعظم سواتی ملتے ہیں ، اعظم سواتی جن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے لیے کبھی کمفرٹیبل نہیں ہوتی۔ اعظم سواتی عمران خان سے ملے عمران خان کا پیغام باہر آتا ہے کہ ان کی طرف سے جلسے کی منسوخی کی اجازت دیتے ہوئے 8ستمبر کو اسی جگہ پھر جلسے کا اعلان کیاگیا ہے۔عمران خان کی طرف سے اس پر اگلے روز ان خبروں کے بعد وضاحت دی گئی جن خبروں میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکن بڑے مشتعل ہیں، کئی لیڈر بھی اس فیصلے کے خلاف آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ جلسہ کرتے تو دوبارہ نو مئی گلے پڑنے کا خدشہ تھا۔ مجھے پیغام دیا گیا کہ اگر اسلام آباد میں جلسہ ہوا تو ملک میں انتشار پھیل جائے گا۔جس پر جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اب اجازت دے کر جلسہ روکنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ 
قارئین! جو کچھ ہمیں سامنے نظر آ رہا ہوتا اس کے پس منظر میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ ادارے جس طرح سے کام کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں،عمل کرتے ہیں وہ ایک وار گیم کی طرح ہوتا ہے جس کی عام آدمی کو سمجھ نہیں آتی لیکن عام لوگ اپنی اپنی فراست کے مطابق ردعمل دیتے ہیں۔عمران خان سے تو ان کے وکلا اور ان کے عزیز بھی نہیں مل سکتے لیکن صبح سات بجے اعظم سواتی ان سے مل لیتے ہیں اور حکومت جو عمران خان کو گمنامی میں پستیوں میں دھکیلنا چاہتی ہے وہ کیسے اعظم سواتی کی عمران خان سے ملاقات کا اہتمام کر سکتی ہے۔ ادارے بھی عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔آج کا حکمران طبقہ تو عمران خان کی مخالفت میں دشمنی کی حدیں بھی کراس کر گیا ہے لیکن اداروں نے ملک کے مفاد کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے سامنے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اعظم سواتی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں رہے لیکن جب ملکی مفاد کا سوال آتا ہے تو ادارے ،اعظم سواتی اور عمران خان آپ کو ایک ہی پیج پر نظر آئیں گے۔ جبکہ حکومتی لیڈروں کا ایک بڑا حصہ عمران خان کو ہر طرح کسی بھی طرح منظرعام سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے لیے جہاں تک بھی جانا پڑے وہ جا چکے ہیں اور جانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ حکومت کے اوپر اوپر سے سارا کچھ ہوا ہے۔ جس روز تحریک انصاف کا اسلام آباد میں جلسہ تھا اسی روز سپریم کورٹ میں ’مبارک ثانی‘ نظر ثانی کیس کی سماعت بھی ہونی تھی۔ دو روز قبل کارکن ناموسِ رسالت پر کٹ مرنے کا عزم ظاہر کرنے والے لوگ سپریم کورٹ میں گھس گئے تھے ان کو کسی نے بھی سپریم کورٹ کی حدود میں جانے سے نہیں روکا اور 22اگست کو بھی انہوں نے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران موجود ہونا تھا۔ تحریک انصاف کے لوگ دور دراز سے اسلام آباد جلسے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔ ان کی تعداد لاکھوں میں تھی جبکہ نظرثانی کیس کی سماعت کے موقع پر آنے والے شمع رسالت کے پروانے وہ بھی لاتعداد کی صورت میں اسلام آباد میں آ رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس معاملے پر تحریک انصاف اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں ’مبارک ثانی‘ نظر ثانی کیس کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ لیکن جب ایک ہی پارٹی کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں تصادم کی چھوٹی موٹی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور جو لوگ کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے گردونواح میں موجود تھے ان کے درمیان خدشہ تھا کہ بغیر کسی مخالفت کے بھی کوئی مڈبھیڑ ہو جاتی تو یہ مڈبھیڑ تصادم کا رخ اختیار کر سکتی تھی یا پھر دو درجن خفیہ ایجنسیاں اور فارم 47کے اثرات سے بننے والی موجودہ رجیم اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے ان مذہبی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان کہیں بھی تصادم کروا کر آپس میں لڑوا سکتی تھی۔اور پھر جوکچھ پاکستان میں ہوتا اس کو صحیح رنگ دیا جاتا یا غلط رنگ دیا جاتا۔ایک خون خرابے کی راہ نکل آتی۔ اس سب کا ادراک اداروں کو تھا اس لیے انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ عمران خان کو منایا اور سمجھایا جائے اور اس کے لیے انہوں نے عمران خان کے سب سے بااعتماد ساتھی اعظم سواتی کو جیل میں اس وقت بھیجا جب ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور عمران خان نے اعظم سواتی کی بات مان لی اور جلسے کو موخر کر دیا۔
ہم نے یہ دیکھا کہ حسینہ شیخ کا کس طرح سے دھڑن تختہ ہوا ،وہ بڑی آسانی سے معاملات کو سنبھال سکتی تھیں ،ملازمتوں کے کوٹے کا ہی تو معاملہ تھا جو بھی مطالبات ان کے سامنے آئے تھے وہ ان سب کو مان لیتیں اورجب عمل کیا جانا تھا تو اس میں تھوڑی تاخیر ہو سکتی تھی اگر ان سے م±کر بھی جاتی تو پھر مظاہرین کو چارج ہونے میں سال چھے مہینے لگ جانے تھے اس دوران وہ اپنا کوئی نہ کوئی بہتر لائحہ عمل طے کر سکتی تھی۔ لیکن انہوں نے حماقت کی اور کوٹے کا فیصلے واپس بھی لیا تو اس وقت لیا جب سروں سے پانی اوپر جا چکا تھا۔ حسینہ واجد کی ہم نے اس لیے مثال دی ہے کہ آپ اپنی دانشمندی اور حکمت عملی سے کسی بدترین صورت حال کو کچھ عرصے کے لیے ٹال سکتے ہیں لیکن جہاں پر مذہب کا معاملہ آ جائے اور وہ ہو بھی پاکستان میں تو اس میں آپ کسی صورت بھی، کسی معاملے کو ایک دو دن بھی نہیں ٹال سکتے۔ اس سب کا اداروں کو اندازہ تھا انہوں نے اسی لیے عمران خان سے جلسہ ملتوی کرنے کی درخواست کی اور اس کے ساتھ ہی معاملات اب دوسرا رخ اختیار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اور اداروں کے مابین صورت حال پہلے کی نسبت بہتر ہو جائے گی۔ 
بات ہم نے شروع کی تھی عمران خان نے جلسے کو موخر کیوں کیا؟ اس کے کیا محرکات تھے؟ تو یہی محرکات تھے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھے۔ اگر جلسے کی اجازت دے دی جاتی تو خون ریزی کا بہرحال امکان تھا اور جس سے پاکستان اس طرح عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا تھا کہ استحکام کی راہ پر لانے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوتیں۔قارئین! جیسا کہ آپ نے گذشتہ چند روز میں حالات و واقعات کا جائزہ لیا ہے آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ گذشتہ روز مبارک ثانی کیس کی نظرثانی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے کہ وہ کس کس طریقے سے مذہبی جماعتوں کے وکلا کو مطمئن کر سکیں۔اور وہ ان کے ترلے منتوں پر اُتر آئے اور ایک متاثرہ فریق کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس اپنے چیمبر میں بلائے اور ان کے سامنے فیصلہ بدلنے کی شقوں کو طے کرے۔اور آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ عاشق رسول اس وقت اِس پوزیشن میں تھے اگر وہ چاہتے تو اعلیٰ عدالت سے اسی وقت سختی سے بھی لکھوا لیتے۔ قارئین! اس وقت عمران خان مذاکرات کی میز پر بہتر طریقے سے ترپ کے پتوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی دانش اور سیاسی شعور کے آگے موجود نظام بالکل بے بس ہے۔

ای پیپر دی نیشن