امید انقلاب 

Aug 27, 2024

سرفراز راجا

راج دھانی سرفراز راجا 

sarfrazraja11@gmail.com

دنیا میں کہیں بھی کوئی بڑا احتجاج ہوجائے کسی حکومت کا تختہ الٹ جائے ہمارے یہاں بہت سے لوگ امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ حکومت مخالف سیاستدانوں کو تو خواب و خیال میں وہی کچھ اپنے ملک میں ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ خواہش کو ہیشگوئی بناکر پیش کرنے لگ جاتے ہیں آج سری لنکا کو سب بھول گئے ہیں دو سال پہلے ہماری یہاں سری لنکا سری لنکا ہورہی تھی پاکستان کے سری لنکا بننے کی پیشگوئی بہت تواتر کیساتھ کی جاتی رہی۔ ویسے تو سری لنکا کے معاشی حالات اب ایسے ہورہے ہیں کہ شاید آج کے دن سری لنکا بننے کی ہیشگوئی کو نیک خواہش قرار دیا جاسکتا ہے لیکن دو سال پہلے تو ایسا بالکل نہیں تھا جب یہ ملک باقائدہ دیوالیہ ہوچکا تھا لوگ حکمرانوں کے گھروں اور دفاتر کے اندر پہنچ چکے تھے لیکن ہمارے یہاں کے بہت سے دلوں کی اپنے یہاں بھی ایسے مناظر دیکھنے کی خواہش،خواہش ہی رہ گئی۔ پھر بیچ میں ایک بار کینیا کے حالات خراب ہوئے اور ہم نے اپنے ملک کے کینیا بننے کی پیشگوئیاں کر ڈالیں حیرت کی بات یہاں یہ ہے کہ اس دوران فرانس اور برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی پرتشدد مظاہرے ہوئے مہنگائی کےخلاف لوگ سڑکوں پر نکلے لیکن کسی نے پاکستان کے فرانس یا برطانیہ بننے کی ہیشگوئی نہیں کی شاید اس لئے کہ ایسی ہیشگوئی پر تو لوگوں میں اچھی امید پیدا ہوتی لیکن ہم کیوں اچھی امید دلوائیں ہمارا سودا تو مایوسی پھیلانے سے ہی بکے گا۔ اب بنگلہ دیش میں کامیاب طلبا تحریک کے بعد ہم نے بھی کچھ ایسی ہی امیدیں باندھ لی ہیں جب سے اس تحریک نے ملک کی وزیر اعظم کو اقتدار چھوڑ کر بیرون ملک بھاگنے پر مجبور کردیا ہم بھی اس دن سے طلبا کی کئی تحریکیں سوشل میڈیا پر شروع کروا چکے ہیں۔روزانہ کسی نہ کسی پوسٹ میں لاکھوں طلبہ نکل چکے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں کیا بنگلہ دیش جیسی تحریک پاکستان میں شروع ہوسکتی ہے؟ اس کے کے لئے بنگلہ دیش کے حالات کو سمجھ کر ان کا پاکستان سے موازنہ کرنا ضروری ہے۔ بنگلہ دیش میں طلبا تحریک ایک ایسے مسئلے پر شروع ہوئی جو خالصتا عوامی نوعیت کا مسئلہ تھا اس ملک میں جہاں سرکاری نوکری بہت اہمیت کی حامل ہے وہاں آدھی سے بھی زیادہ ملازمتیں کوٹے والوں کو ملیں تو اکثریت کا اس کیخلاف آواز اٹھانا بنتا ہے تیس فیصد ملازمتیں اکہتر کی بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک میں حصہ لینے والوں کو چلے جانے پر کسی نے اعتراض نہیں تھا لیکن جب یہ ملازمتیں ان لوگوں کی اولادوں اور پھر اولادوں کی اولادوں کو دی جانے لگیں تو اعتراض تو بنتا تھا پھر جب اس بات کا تعین کہ کون اس علیحدگی کی تحریک کے کارکن کی نسل سے ہے ،حکمران جماعت نے ہی کرنا ہے تو پھر سیدھا سیدھا یہ تیس فیصد کوٹا حکومتی لوگوں کیلئے ہی مختص سمجھا جائے تو اعتراض اور احتجاج تو بنتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ کوئی حکومت مخالف تحریک نہیں تھی بلکہ جب بنگلہ دیشی وزیر اعطم نے طلبا کو رضا کار کہہ دیا اور مظاہرین کیخلاف کریک ڈاون شروع کیا تو تحریک نے حکومت مخالفت رنگ لے لیا یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں رضا کار ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف لڑے تھے ، مشرقی اور مغربی پاکستان کے ایک ساتھ رہنے کے حق میں تھے پھر وزیراعظم حسینہ نے حکمران جماعت کے طبا ونگ کو احتجاجی طلبا کے مقابلے میں لایا اور طلبا تحریک کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جس میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوگئیں اور جس دن بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے استعفی دیا اس دن تین لاکھ سے زیادہ لوگ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر تھے۔ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں کزشتہ کئی سالوں سے جتنے لاکھ لوگ سڑکوں پر لانے کا دعوی کرتی ہیں دراصل وہ اتنے ہزار بھی نہیں نکال پاتیں۔ ایک اور اہم بات کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور ان کی جماعت پندرہ سال سے اقتدار میں تھی اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا گیا اس سال ہونیوالے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے دو تہائی اکڑیت حاصل کی جبکہ دوسری بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی تھی جس میں بھی بہت سے دراصل انہی کے امیدوار تھے کیونکہ اپوزیشن جماعت کے بائیکاٹ کے بعد انتخابی عمل کی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے خود ہی امیدواروں کو اپنے خلاف کھڑا کیا گیا، ہمارے یہاں گزشتہ پندرہ سال میں تمام بڑی جماعتیں حکومت میں رہیں،الیکشن میں دھاندلی کے الزامات تو ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمران جماعت اس مبینہ دھاندلی کے باوجود دو تہائی تو کیا سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی اس کے اپنے اہم رہنما ہار گئے اور ان کے مخالفین اکثریت میں جیتے تو امیدیں بنگلہ دیش والی کوئی لاکھ لگالے لیکن حالات یکسر مختلف ہیں طلبا سڑکوں پر نکلیں گے حکمران بھاگ جائیں گے انقلاب آجائے گا ایسے انقلاب ہم سوشل میڈیا پر ہی لاتے ہیں۔تو تسلی رکھیں اور سوشل میڈیا کے اس انقلاب کا مزا لیں لائیک شیئر وغیرہ کرکے اس انقلاب میں اپنا حصہ ڈالیں کیونکہ بنگلہ دیش جیسا یہاں کچھ بھی نہیں

مزیدخبریں