منگل‘ 21 صفر المظفر1446ھ ‘ 27  اگست 2024

شنگھا ئی اجلاس میں مودی کی شرکت پر سوالیہ نشان۔
بے شک اجلاس میں تمام ممبر ممالک کے رہنماو¿ں کو شرکت کے دعوت نامے جاری کئے گئے ہیں۔ اکثر کی آمد متوقع ہے۔ اس لئے مودی کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ اب چونکہ اس بار چیئرمین شپ پاکستان کے پاس ہے۔ اس لیے قوی امید یہ ہے کہ مودی کو شرکت کرتے ہوئے موت پڑے گی اور وہ نہیں آئیں گے۔ ویسے بھی الیکشن کے بعد وہ د±کھی د±کھی سے رہنے لگے ہیں۔ مسکراہٹ تو لگتا ہے ان سے روٹھ سی گئی ہے۔ ہمہ وقت انجانے خدشات اور تفکرات نے ان کی ساری اکڑ فوں نکال دی ہے۔ کہاں 54 انچ کی چھاتی نکال کر 400 پار کی بڑھکیں لگانے والا جو اسلام آباد اور بیجنگ کو بیک وقت ہدف بنانے کے دعوے کرتا پھرتا تھا۔ آج خود "پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں“ والی بے بسی کا شکار نظر آتا ہے۔ مگر وہ جو چانکیائی روح ان کے اندر مچلتی رہتی ہے۔ آخر اس نے بھی تو کوئی چن چڑھانا ہوتا ہے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور زبان سے زہر ا±گلنے سے ان کی میکاولی ذہنیت اور سیاست واضح ہوتی ہے۔ اب گزشتہ روز کی ہی واردات دیکھ لیں بیرون ملک دورے سے واپس دہلی جاتے ہوئے ان کے طیارے نے پاکستان کا فضائی روٹ استعمال کیا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ آخر ہمارے ادارے اور سول ایوی ایشن والے ریڈار بند کر کے کہاں سوئے ہوئے تھے۔ یہ کوئی معمولی غفلت یا کوتاہی نہیں . کافی دیر تک بھارتی طیارے کا ہماری فضاو¿ں میں محوِ پرواز رہنا اچھا شگون نہیں ہے۔ دشمن کی تو ہر ادا، ہر حرکت، پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ذرا سی غفلت سے بھی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور جب مودی جیسے مکار دشمن کا سامنا ہو تو زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ موقع ملتے ہی وار کرنے سے باز نہیں آتا اس لئے مودی کا پاکستان آنا ممکن تو نہیں لگ رہا مگر اس عالم نا پائیدار میں کچھ بھی نا ممکن نہیں۔
 عارف علوی تحریک انصاف میں اختلافات ختم کرنے والی کمیٹی کے سربراہ مقرر۔
سابق صدر عارف علوی کو مبارک ہو کہ انہیں اب ایک اور سیاسی مصروفیت مل گئی ہے۔ یوں ان کی سیاسی تنہائی دور ہو جائے گی۔ البتہ ان کے ذاتی کاروبار یعنی ڈینٹل کلینک پر ب±را اثر پڑ سکتا ہے۔ مگر یہ نقصان وہ اس وقت بھی برداشت کرتے رہے ہیں جب وہ ایوان صدر میں سکونت رکھتے تھے اور کلینک بند رہتا تھا۔ تاہم وہ چاہیں اسے کرائے پر دے سکتے ہیں یا کسی اور ڈاکٹر کو وہاں رکھ سکتے ہیں۔ اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اندر ہونے والی اختیارات حاصل کرنے کی جنگ کو کس طرح ختم کراتے ہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے عام عہدیدار نہیں بلکہ اپنی اپنی جگہ طاقت اور اختیارات رکھنے والی قوتیں ہیں۔ علیمہ خان اور بشریٰ بی بی اگر ایک دوسرے کے مقابل ہوں تو بندہ کس کو صحیح کس کو غلط کہے ،یہ تو وہی آگے کنواں پیچھے کھائی والی بات ہے۔ یہاں تو اپنی پگڑی سنبھالنا بھی مشکل ہوگا۔ علیمہ خان تو کھل کر اب بانی کی رہائی کےلئے تحریک چلانے نکل پڑی ہیں۔ پشاور اور مردان میں جا کر انہوں نے کئی ناراض عہدیداروں اور کارکنوں کے علاوہ جیل میں بند ساتھیوں سے بھی ملاقات کی۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے بھی بے خبر رہے۔ علیمہ خان نے بشریٰ بی بی اور دیگر رہنماو¿ں کے بارے میں بھی پارٹی والوں کو خبردار کیا کہ ان کو بانی کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے وہ اب ”رہائی تحریک“ چلا رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی میں ”بہت سا کام رفو کا نکلا“ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اب عارف علوی کو مہارت دکھانا ہوگی کہ وہ کس طرح دامن میں ہونے والے سوراخوں کو رفو کرتے ہیں۔ بطور تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین کے دیکھتے ہیں انہیں رفوگری کے فن میں کتنی مہارت ہے۔
قید ڈاکو کے بدلے میں مغوی پولیس اہلکار رہا۔
یہ پولیس اہلکار گزشتہ دنوں کچے کے بدنام زمانہ ، پکے ڈاکو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس پر تشدد کر کے ویڈیو بنائی جس میں وہ حکام سے اپنی رہائی کی اپیل کر رہا تھا۔ اب اطلاع یہ ہے کہ اسے بدنام قاتل اور ڈکیت کے بدلے میں چھوڑا گیا ہے جو جیل میں بند تھا۔ یوں اس پولیس والے کی رہائی ممکن ہو سکی۔ اب کوئی بتلاو¿ کہ ہم کیا کہیں۔ یہ تو حقیقت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ قانون نافذ کرنے والے مسلح ادارے بھی ان مٹھی بھر کہہ لیں یا چند سو ڈاکوو¿ں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ یہ ڈاکو سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں جہاں جی چاہتا ہے واردات کرتے ہیں اور لوگوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کر کے چھوڑتے ہیں۔ جن اداروں نے قانون اور حکومت کی رٹ قائم کرنی ہے وہ تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پولیس پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کیا یہ صرف ان کی ٹہل سیوا کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ جدید اسلحہ و تربیت کے باوجود ان چند سو سماج دشمن عناصر کیخلاف کامیاب نہیں ہو رہے ان کے قدم اکھڑتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب گزشتہ روز جس پولیس والے کے بدلے میں یہ ڈاکو کو رہا کیا گیا اس کی واپسی پر کچے کے علاقے میں ڈاکوو¿ں نے بھرپور جشن منایا اور دل کھول کر فائرنگ کر کے اس کا استقبال کیا۔ یہ دراصل استقبال نہیں پولیس والوں کی کارکردگی پر طمانچہ ہے کہ انہی کے پروردہ ڈاکو آج انہی پر وار کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر ان کو کچلا نہیں گیا تو کل کیا پتہ یہ اپنے مربی حکمرانوں، سیاستدانوں کو بھی کچے کی ”سیر“ کےلئے لے جا سکتے ہیں، انہیں کون روک سکتا ہے،اب تو ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔
بنگلا دیش کے ہاتھوں پاکستان ٹیم کی ہوم گراونڈ میں شکست۔ 
ہوم گراو¿نڈ پر عوام کی طرف سے بھرپور حمایت کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی نہایت ناقص رہی اور بنگلا دیش کرکٹ ٹیم کے خلاف ہمارے کھلاڑی ریت کی دیوار ثابت ہوئے نہ باو¿لر کوئی طوفان اٹھا سکے نہ بیٹر (بلے باز) کوئی قیامت ڈھا سکے۔ یوں پہلا ٹیسٹ میچ ہی ہم 10 وکٹوں سے ہار گئے۔ یہ کوئی ٹی 20 ٹورنامنٹ تو تھا نہیں کہ امید رہتی تھی کہ اگلا میچ ہم جیت کر کم بیک کر لیں گے۔ یہ ٹیسٹ میچ محدود ہوتے ہیں اور ایک آدھ کی ہار جیت ہی فیصلہ کن ہوتی ہے۔ ٹیسٹ میچوں میں سارے کھلاڑیوں کو اپنا ھنر آزمانے کا موقع ملتا ہے یوں پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ بنگلا دیش کی ٹیم نے امریکہ میں ہونے والے ٹی 20 میچوں میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی ہم وہاں بھی ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے“ والی حالت میں نظر آئے۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں۔ پی سی بی والے بھی یہی حوصلہ دلا رہے ہیں کہ اگلے میچ میں ہم کامیاب رہیں گے۔ بس یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ کرکٹ کی دنیا کے بڑے بڑے نامور ہمارے ہیرو کھلاڑی آخر کیوں چلنا ہو تو واہ واہ اور نہ چلنا ہو تو چلے ہوئے کارتوس کی طرح ٹھس ہو جاتے ہیں؟۔ چلو تھوڑی بہت تو ہمت دکھاتے، میدان میں رنگ جماتے، کرکٹ شائقین کا بھی حوصلہ بڑھتا۔ مگر یہاں تو پورے میچ میں بھی کسی کو دل کھول کر نعرے لگانے اور باجا بجانے کا موقع نہیں ملا۔ یوں دل کے ارمان دل میں ہی رہ گئے۔اس میچ میں کامیابی پر بنگلا دیش ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے جبکہ ہمارے کپتان شان مسعود صرف ”معذرت خواہ ہوں“ کہہ رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن