راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے آخری روز پاکستان کی پوری ٹیم دوسری اننگز میں صرف 146 رنز ہی بنا سکی اور بنگلا دیش کو جیت کیلئے 30 رنز کا ہد ف دیا ، جسے مہمان ٹیم نے بغیر کسی نقصان کے باآسانی حاصل کرلیا۔بنگلا دیش کی جانب سے ذاکر حسن نے 15جبکہ شادمان اسلام نے 9رنز سکور کیے، پاکستان کی جانب سے کوئی با?لر وکٹ نہ لے سکا۔کیپٹن شان مسعود نے خراب کارکردگی پر معافی مانگ لی ہے۔
اگر قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر پاکستان کے حصے میں زیادہ تر ناکامیاں ہی آتی نظر آئی ہیں۔ ناقص کارکردگی پر کوچز اور کھلاڑیوں کی باربار کی تبدیلیوں سے بھی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہیں لائی جا سکی جس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ کھلاڑیوں کی سلیکشن کے وقت میرٹ کے بجائے سفارش یا تعلقات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پنڈی ٹیسٹ میں ہوم گراو¿نڈ پر بنگلہ دیش کے ہاتھوں قومی ٹیم کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ انتہائی شرمناک ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہونیوالے کھیلوں میں کسی ٹیم کی شکست صرف ٹیم ہی نہیں‘ ملک و قوم کی شکست تصور ہوتی ہے جس سے ملک کا امیج بھی خراب ہوتا ہے اور قوم کا مورال الگ سے ڈاﺅن ہوتا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے اور مراعات کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کھیل کی ناکامی کا ملبہ صرف کھلاڑیوں پر ہی نہیں ڈالا جا سکتا‘ انتظامیہ کی عدم دلچسپی بھی اس میں کارفرما ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ6 جولائی کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا اجلاس ہوا جس میں 2024-25ءکے مالیاتی بجٹ منظور کیا گیا لیکن بورڈ کی بے حسی اور لاپروائی کا یہ عالم تھاکہ اجلاس میں ٹی۔20 ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ‘ آئرلینڈ اور انگلینڈ کیخلاف سریز میں قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ کرکٹ میں قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں کے تناظر بہتر ہے کہ دوسرے کھیلوں کی طرف توجہ دی جائے جن میں کھلاڑی پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔پیرس اولمپکس میں ارشد ندیم کی کامیابی اسکی بہترین مثال ہے۔