مودی کو شنگھائی سربراہ اجلاس  میں شرکت کی دعوت

پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آنے کی دعوت دی ہے۔ یہ اجلاس 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان نے تمام رکن ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے بھجوا دیئے ہیں جن میں نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی حکومت نے پاکستان کا یہ دعوت نامہ قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ مودی کی جگہ کسی بھارتی وزیر کو کانفرنس میں شرکت کیلئے بھجوانے کا امکان موجود ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2015ءمیں اسلام آباد میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی وزیراعظم کی بجائے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے شرکت کی تھی۔ 
اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے علاقائی تعاون کیلئے بھی اپنی اپنی سطح پر تنظیمیں قائم کرکے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کے راستے کھول رکھے ہیں جن میں اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی اور جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک سربراہ کانفرنس کو اہمیت حاصل رہی ہے جبکہ 2 اپریل 1996ءکو چین اور روس نے باہم اتفاق رائے سے شنگھائی تعاون تنظیم تشکیل دی جس کا بنیادی مقصد اسکے رکن ممالک کے مابین تجارت اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ تنظیم پانچ رکنی تھی جبکہ اس وقت 9 ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت کی اس تنظیم کے اجلاسوں میں بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا تنظیم کے فیصلوں اور ایجنڈے پر غلبہ رہے۔ بھارت نے اپنی برتری کے اسی خناس میں سارک سربراہ کانفرنس کو بھی سبوتاژ کیا اور اسلام آباد میں منعقدہ اسکے اجلاس کا نہ صرف خود بائیکاٹ کیا بلک اپنے کٹھ پتلی اسکے رکن دیگر رکن ممالک کو بھی بائیکاٹ کا راستہ دکھایا۔ اس طرح وہ سارک کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔ اسے چونکہ یہی دھڑکا ہوتا ہے کہ ان تنظیموں کے اجلاسوں میں کشمیر ایشو پر اس کا گھیراﺅ ہوگا اس لئے وہ ایسے اجلاسوں میں یاتو شرکت سے گریز کرتا ہے یا سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔ یقیناً شنگھائی اجلاس کے اسلام آباد میں انعقاد پر بھی بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہونگے اس لئے اس اجلاس میں مودی کی شرکت سے معذوری بعید ازقیاس نہیں۔ ہمیں بہرصورت اس اجلاس کو مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے بھارت پر دباﺅ بڑھانے کیلئے بروئے کار لانا چاہیے کیونکہ اس مسئلہ کے حل سے ہی علاقائی امن و استحکام اورطاقتصادی تعاون کی ضمانت مل سکتی ہے۔ بھارت کی اس اجلاس میں عدم شرکت اسکے عزائم کو خود ہی بے نقاب کردیگی۔

ای پیپر دی نیشن