عالمی ماہر معیشت جوزف سٹگلز کی نئی کتاب ”روڈ ٹو فریڈم“ (Road to Freedom)مارکیٹ میں موجود ہے۔ یہ کتاب دنیا کے ان تلخ معاشی اور سیاسی حقائق کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کی طرف کبھی فیض اور ساحر اپنے اشعار کے ذریعے کیا کرتے تھے۔ جوزف بتاتے ہیں کہ کس بری طرح ناکامی کے باوجود ساری دنیا نیو لبرل ازم (عام فہم زبان میں فری مارکیٹ اکانومی کی حوصلہ افزائی کرنے والے سیاسی نظریات) کی گرفت میں تڑپ رہی ہے کیونکہ اس کا دیپ صرف محلات میں ہی جل سکا ہے اور یہ محلات سے نیچے کی دنیا کی معاشی، سیاسی اور شخصی آزادیوں پر سرمایہ داری کا قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔
ابتدائ سے لیکر اب تک انسان نے بہتری کی امید پر اکثر خرابیوں کا سفر ہی طے کیا ہے، کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی عالمی ارباب اختیار کے کسی کرتب کا نام ہے۔ ایسا کرتب یا حسین سراب جو آنکھیں بند کرنے پر مجبور کرکے جنت کے خواب دکھائے اور کھولنے پر جہنم سے بھی ہولناک نظارے کرائے۔ عالمی اشرافیہ کے چند سویا چند ہزار لوگوں کو چھوڑ کر زندگی کسی مفلس کی قبا سے کم نہیں جس کی مرمت کیلئے ہر گھڑی دو وقت کی روٹی، قرض کی قسطوں اور بلوں کی ادائیگی کے پیوند لگانے پڑتے ہیں۔ عالمی ارباب اختیار کی معاشی ترقی اور شخصی آزادی کیلئے زیادہ تر بے ڈھنگی اور ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا جیسی چالوں کا نتیجہ انسانوں کے مسائل میں اضافے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔
ایک صاحب اپنے حالات سے انتہائی پریشان ہو کر ایک نجومی کے پاس جا پہنچے۔ نجومی نے بڑے غور سے ہاتھ دیکھ کر سادہ کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں بنائیں اور غوروفکر والے انداز میں ان سے کہا کہ ”دو برس بہت پریشانی کے ہیں‘ کیا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا؟“ ان صاحب نے آس بھری نگاہوں سے نجومی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو نجومی نے نفی میں سر ہلاکر کہا کہ ”ٹھیک تو نہیں ہوگا البتہ آپ پریشانیوں کے عادی ہو جائیں گے“۔
انسان نے سیاسی یا شخصی آزادی کی طرف قدم بڑھائے تو بے ربط، معاشی چال چلی اور انتہائی بری چلی، ہر کام بغیر توازن کے کیا، اس لئے مشہور فرانسیسی دانشور روسو کو کہنا پڑا کہ ”تہذیب ایک بیماری ہے“۔ جدید دور کے دانشور عسایابرلن ( Isaiha Berlin) نے کہا کہ ”حضور کچھ توازن میں ہر ایک کی آزادی کا صحیح صحیح پیمانہ مقرر کریں ورنہ تو بھیڑیئے کی آزادی کا مطلب بھیڑ کی موت کے سوا اورکچھ نہیں“
کارل مارکس بھی موجودہ دور میں ہوتے تو ایک بار غالب کے ”طرفدار“ ضرور بن جاتے اور گنگناتے پھرتے کہ ”حیران ہوں دل کو روو¿ں کہ پیٹوں جگر کو میں“ .... انہوں نے مزدور کی لڑائی لڑتے اور حق دلوائی کی بات کرتے کرتے اپنی مایہ ناز کتاب ”داس کیپٹل“ کے صفحات کے صفحات کالے کر دیئے اور ادھر دولت ہے کہ چند ہاتھوں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے مصداق اکٹھی ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس طرح پھل پھول رہی ہے کہ بقول جون ایلیا ”دیکھنے والے بھی ہاتھ ملتے ہیں“۔ دوسری طرف جائز تنخواہ کی بات تو الگ نوکریوں کے لالے تک پڑ گئے ہیں۔
عالمی معاشی اشرافیہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر دنیا کی شرح نمو اس طرح رکی رہے گی جس طرح آجکل رکی ہوئی ہے تو وہ پھر مزید دولت کے انبار کیسے لگائیں گے؟ گریٹ ڈپریشن والی اس صورتحال کا نتیجہ تو کوئی بڑی جنگ ہی ہوتی ہے۔ لیکن اب پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں چلنے والے پٹاخہ نما ہتھیاروں سے بھی معاملہ بہت دور جا چکا ہے بلکہ اب تو بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی کہ کئی ملکوں کے پاس ایسا خطرناک اسلحہ موجود ہے جو دنیا کو متعدد بار تباہ کر سکتا ہے۔ عالمی ارباب اختیار مولانا روم کی اس نصیحت کو ہی کافی جان لیں کہ ایک بار ایک شخص نے مولانا روم سے پوچھا زہر کیا ہے تو انہوں نے کہا ہر وہ چیز جو ضرورت سے زیادہ ہو زہر ہے۔ یعنی ضرورت سے زیادہ دولت بھی زہر ہی ثابت ہوتی ہے۔
ایک بادشاہ کو دولت کے انبار لگانے کا بہت شوق تھا اگرچہ اس کے پاس خود کی کمائی اور رعایا سے لوٹی کافی دولت جمع ہو چکی تھی لیکن دل تھا کہ بھرتا ہی نہیں تھا۔ ایک ہی بیٹی تھی اس سے بہت پیار کرتا لیکن اس کیلئے دولت سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ ایک بار وہ اپنے خزانے والے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک ایک غیر معمولی انسان نمودار ہوا اور اس سے ایک خواہش کی تکمیل کا وعدہ کیا بادشاہ نے فوراً کہہ دیا وہ توچاہتا ہے کہ جس چیز کو چھوئے وہ سونے کی ہو جائے۔ خواہش پوری ہوئی بادشاہ سلامت جھومتے جھامتے جدھر جاتے جس چیز کو چھوتے وہ سونے کی ہو جاتی ہے۔ بیٹی سامنے آئی تو خوشی سے اس کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا تو وہ پلک جھپک میں سونے کی ہو گئی۔ تھوڑے فکر مند ہوئے لیکن اب تو چڑیا کھیت کھلیان سب ±چگ چکی تھیں پھر وہی ہوا جو ایسی کہانیوں کے آخر میں اکثر ہو جایا کرتا ہے۔ بادشاہ کو باہر آتا نہ دیکھ کر دو تین روز بعد اس کے کارندے محل میں داخل ہوئے تو سونے کی شہزادی کے ساتھ ہاتھ میں سونے کا نوالہ پکڑے بادشاہ کی لاش بھی مل گئی۔ موت یقیناً بھوک سے ہوئی تھی....
چلتے چلتے یہ تذکرہ بھی ہو جائے کہ نیو لبرل ازم کا بخار کم نہیں ہوا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے طاقتوروں نے مصنوعی ذہانت کی ”بیماری“ بھی پال لی ہے۔ بیماری اس لئے کہ خیال تھا مصنوعی ذہانت انسانی زندگیوں کو آسان بنائے گی کئی کام کرے گی لیکن یہ بھی روٹی روزگار کی دشمن بن گئی نوکریاں کم اور معاشی مسائل بڑھنے لگے نہلے پہ دہلا یہ کہ بگ ڈیٹا کے تصور سے ہی شخص آزادیوں کا کچومر نکل جاتا ہے دل و دماغ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم کون اور کیا ہماری مرضی .... اوپر سے یہ خوف الگ سے دامن گیر ہوتا جا رہا ہے کہ کسی روز مصنوعی ذہانت انسان پر قابو نہ پا لے اور ہمیں اپنی ہی ایجاد کی غلامی کا طوق نہ پہننا پڑ جائے۔
عالمی معاشی پہلوانوں کو ٹالسٹائی کی کہانی بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے جس کا کردار زمین کے لالچ میں مبتلا ہوکر سارا گاو¿ں خرید لیتا ہے۔ دل نہیں بھرتا تو گاو¿ں کے باہر موجود قبیلے کے سردار سے درخواست کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی زمین اسے بیچ ڈالے۔ سردار کہتا ہے کہ یہ زمین سارے قبیلے کی ہے فروخت نہیں کر سکتے۔ اصرار پر سردار شرط رکھتا ہے کہ بھاگ کر جتنی زمین کے گرد چکر لگالو گے تمہاری ہو جائے گی لیکن مغرب تک واپس آنا ہوگا۔ زمینوں کے لالچی کو لالچ ایک جگہ سے دوسری بھگاتا ہے بہت ساری زمین کے گرد حصار بناکر وہ شرط کے مطابق مغرب کے وقت واپس پہنچ تو جاتا ہے لیکن سردار کے قدموں میں گر کر جان دے دیتا ہے۔ اس پر سردار تاریخی جملہ بولتا ہے کہ ”اصل میں اسے دو گز زمین ہی چاہئے تھی جہاں اس کا جسد خاکی پڑا ہے“ اور اسے وہیں دفنا دیا جاتا ہے۔
عالمی معاشی پہلوانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ زمینوں کا لالچی شخص پھر خوش قسمت تھا کہ اسے دوگز زمین میسر آ گئی ورنہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر جیسے بادشاہوں کو کوئے یار میں ڈھونڈنے سے دو گز زمین بھی نہیں ملا کرتی۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کیلئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں