صحافت اور سیاحت 

Aug 27, 2024

میاں حبیب

وطن عزیز میں سب سے زیادہ زیر بحث سیاست ہی رہتی ہے۔ ہم نے کرنا کرانا کچھ ہوتا نہیں لیکن لوگوں کو سیاسی بندر ٹپوسیوں میں الجھا کر رکھتے ہیں۔ ہر لمحے کوئی نہ کوئی نیا تماشہ لگا چھوڑتے ہیں ہمارا میڈیا بھی سیاسی رنگ بازیوں سے باہر نہیں نکل پاتا یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ کر گزرنے کی بجائے باتونی سے ہو چکے ہیں سیاست کے اس گھٹن زدہ ماحول میں پاکستان فیڈریشن آف ڈیجیٹل میڈیا کے سربراہ ملک سلمان گاہے بگاہے صحافیوں کو سیاحت کا موقع غنیمت فراہم کرتےرہتے ہیں۔ سفر انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور آنکھ کے مشاہدے کا تو کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ کراچی اور ملتان کے صحافی لاہور میں اکھٹے ہوئے سفر کا آغاز صبح کے ناشتے سے ہوا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر قیصر رفیق نے پرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا۔ انفارمیشن سیکرٹری حکومت پنجاب احمد عزیز تارڑ اور ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز حکومت پنجاب ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم نے صحافیوں کو بتایا کہ پنجاب حکومت میڈیا سے بہتر تعلقات کار کو فروغ دینا چاہتی ہے صحافیوں کی فلاح وبہبود کے بہت سارے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے پنجاب حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتی ہے حکومت آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ سیاحت کی پروموشن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے انھوں نے وفد کو الوداع کیا۔ دلچسپ گفتگو اور میوزک کے تڑکہ میں اسلام آباد پہنچے تو اسلام آباد کے صحافی انتظار میں تھے، ان کو ساتھ لیا۔ ہماری اگلی منزل خانس پور تھی شام کو خانس پور گلیات کے گیسٹ ہاو¿س پہنچے تو ڈی جی گلیات شاہ رخ علی کے سٹاف نے خوش آمدید کہا۔ خانس پور بہت پرسکون سیاحتی مقام ہے۔ گلیات کا ریسٹ ہاو¿س گھنے درختوں کے درمیان میں واقع ہے جہاں مکمل خاموشی ہے۔ روزانہ بارش ماحول کو اور زیادہ سہانا بنا دیتی ہے۔ کیاریوں میں کھلے پھول، ہرسو ہریالی دل موہ لیتی ہے۔ 
ڈی جی گلیات نے وفد کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا اگلے روز امبریلا جھیل ایکسپلور کرنے کا فیصلہ ہوا۔ خوبصورت درختوں اور سرسبز پہاڑوں سے گزرتے سنگل روڈ پر سفر کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ پہاڑوں اور بادلوں کی آنکھ مچولی دلکش منظر کشی کرتی رہی۔ جب امبریلا جھیل کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے پگڈنڈیوں سے جانا پڑتا ہے۔ خطرناک اترائی سے نیچے اترنا اور پھر واپسی کی چڑھائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ تکلیف دہ مشکل راستہ سے جھیل پر پہنچتے ہی جھیل کا خوبصورت منظر سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ بلند وبالا پہاڑوں سے شبنم کے قطروں کی طرح رستا ہوا پانی جادوائی سا منظر لگتا ہے۔ ایسا منظر کنگ کانگ فلم میں دیکھا تھا۔ اگر امبریلا جھیل کو ڈویلپ کیا جائے تو یہ بہت اچھا سیاحتی پوائنٹ بن سکتا ہے۔ کچھ نہ کیا جائے صرف چڑھنے اترنے کے لیے سیڑھیاں ہی بنا دی جائیں اور جھیل کو تھوڑا ڈویلپ کر دیا جائے تو یہ سیاحت کا اچھا سپاٹ بن سکتا ہے۔ جھیل تک لیجانے کے نام پر گائیڈ ٹورسٹوں سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں جھیل کے قریب پہنچنے پر تھوڑا سا حصہ پتھریلی اترائی ہے جہاں ایک شخص نے رسی باندھ رکھی ہے جس کی مدد سے نیچے اترا جاتا ہے اور وہ ہر سیاح سے سو روپے وصول کرتا ہے ان گائیڈز کو اور وہاں کے مقامی لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جھیل پر دوکانیں بنا کر دی جا سکتی ہیں اسی طرح اگر جھیل سیف الملوک جانے والے راستے کو تعمیر کر دیا جائے اور سیاحوں کی گاڑیاں جھیل تک جانا شروع ہو جائیں تو جھیل کنارے ہوٹلنگ کی پوری انڈسٹری پنپ سکتی ہے لیکن مقامی جیپ مافیا کے آگے لگتا ہے حکومت بھی بے بس ہے یا مقامی سیاستدان نہیں چاہتے کہ جیپ مافیا کی اجارہ داری ختم ہو۔ امبریلا جھیل کے تھکا دینے والے سفر نے آتے ہی کھانا کھا کر سب کو سونے پر مجبور کر دیا۔
 اگلے دن ناشتہ کے بعد مری پتریاٹہ پہنچے۔ ٹی ڈی سی پی نے صحافیوں کوچیر لفٹ کی سیر کروائی چیر لفٹ ٹی ڈی سی پی کا زبردست منصوبہ ہے جس سے سیاح پوری وادی کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ موسم اچھا ہو تو ایسے لگتا ہے آپ بادلوں میں سفر کر رہے ہیں۔ اگر کیبل کار جو کہ کچھ عرصہ سے بند پڑی ہے وہ بھی ٹھیک ہو جائے تو مزہ دوبالا ہو جائے۔ کیبل کار کی بندش کے باعث ٹاپ پر جو ہٹ بنائے گئے ہیں وہاں کی رونقیں ماند پڑی ہوئی ہیں۔ کیبل کار کو فوری بحال کیا جانا چاہیے۔ پتریاٹہ میں رنگ برنگی امبریلا لٹکا کر خوبصورت ماحول پیدا کیا گیا ہے یہ ٹی ڈی سی پی کا اچھا آئیڈیا ہے اور ہر کوئی وہاں تصویر کشی کر کے اپنی یادوں کو محفوظ بناتا ہے۔ دوپہر کو ڈپٹی کمشنر مری ظہیر عباس شیرازی نے رمادا ہوٹل مری میں صحافیوں کے اعزاز میں لنچ دیا۔ اسٹنٹ کمشنر مری عبدالوہاب بھی اس موقع پر موجود تھے۔ مری حکمرانوں کی پسندیدہ جگہ ہے۔ میاں نواز شریف نے مری کو آج کل اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز بھی گاہے بگاہے مری پہنچی ہوتی ہیں۔ مری آسان پہنچ میں اور قریب ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ رش والی جگہ بن گئی ہے۔ انتظامیہ کے لیے گاڑیوں کی پارکنگ اور سڑکوں پر ٹریفک کو رواں رکھنا بڑا مسئلہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ پنڈی سے مری تک گرین لائن ٹرین کی فزیبلٹی بن گئی ہے مری کے لیے پنجاب حکومت نے دس ارب روپے مختص کیے ہیں جن میں سے 5ارب اسی سال خرچ ہوں گے اور 5ارب اگلے سال۔کوٹلی ستیاں میں نیا ٹورسٹ پوائنٹ ڈویلپ کیا جا رہا ہے، پارکنگ پلازے بنائے جا رہے، پبلک ٹوائلٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں، ناجائز تعمیر کردہ عمارتیں گرائی جا رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ سیاحوں کی خدمت کے لیے چوبیس گھنٹے الرٹ رہتی ہے۔ مری کے گردونواح میں نئی جگہیں ڈویلپ کرکے مری کے رش کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مال روڈ جیسا شاپنگ ایریا تعمیر کرکے مال روڈ کے رش کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مری کی ڈویلپمنٹ سیاحوں کے لیے سہولیات اور مسائل کے بارے میں آگاہ کیا۔ رات کو سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو¿ تحسین نے پی سی بھوربن میں ڈنر دیا اور شام غزل نے ٹور کی یادوں کو چار چاند لگا دیئے۔

مزیدخبریں