آڈیٹر جنرل کا خراب معاشی حالات پر تشویش کا اظہار  

Aug 27, 2024

کراچی(این این آئی)آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ملک میں بگڑتے مالیاتی معاملات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے تحفظات اس لیے بھی ہیں کیونکہ 386 کھرب 70 ارب روپے کے بجٹ میں سے 4 فیصد سے بھی کم رقم سماجی و اقتصادی خدمات کے لیے دستیاب ہے، جبکہ پارلیمنٹ کی منظوری نہ ہونے کے سبب تقریباً93 فیصد سپلیمنٹری گرانٹس کو خرچ نہیں کیا جاسکا، جن کی مالیت 80 کھرب روپے سے زائد ہے، جس کے باعث عوامی وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔سالانہ آڈٹ رپورٹ 24-2023 میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ مالی سال 23-2022 میں وفاقی حکومت کے بڑے مالیاتی انتظامی مسائل کا تعلق اضافی گرانٹس کے غیر ضروری مختص کرنے سے ہے جس کے باعث عوامی فنڈز بلاک ہوئے، جائزے کے بغیر بجٹ کا مطالبہ بجٹ کو سرنڈر کرنے، وقت پر بجٹ کی فراہمی یقینی نہ بنائے جانے پر فنڈز کا ضائع ہوجانا اور وعدے پورے نہ ہونا خراب بجٹ منیجمنٹ کی وجہ بنا ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے شدید تشویش کے ساتھ اظہار خیال کیا کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں سماجی و اقتصادی خدمات کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، جس سے شہریوں کے معیار زندگی پر سمجھوتہ ہو رہا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے اخراجات مالی سال 2022 میں تقریبا 250 کھرب روپے ( 296کھرب روپے کے کل اخراجات کا 84 فیصد) تھی، جو مالی سال 2023 میں بڑھ کر 340 کھرب روپے (386.7کھرب روپے کا تقریبا 91.4 فیصد)ہو گئے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے جاری سالانہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق قرضوں پر سود کی ادائیگی کی لاگت ایک سال میں 37 فیصد (90کھرب روپے)تک چلی گئی ہے جبکہ کل اخراجات میں شیئر 7.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سالانہ آڈٹ رپورٹس آئین کے آرٹیکل 169 سے 171 تک درکار ہوتی ہیں، جنہیں اصلاحاتی اقدامات، ریکوری یا ریگولرائزیشن کے لیے صدر اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔اخراجات کی ایک بڑی فیصد جو کہ 96 اعشاریہ 26 فیصد ہے، جنرل پبلک سروس (قرض سروسنگ، دفاع اور سول سرکاری اخراجات) پر خرچ ہوئی، جن میں 2022 اور 23 کے 91 اعشاریہ 42 فیصد قرضوں کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی بھی شامل ہے، 22-2021 میں بھی یہی 83 اعشاریہ 93 تھا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے وفاقی حکومت کے پاس سماجی و اقتصادی کاموں (قرضوں کے علاوہ) کے کل اخراجات کا معمولی 12 فیصد رہ گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 16 اعشاریہ 7 فیصد سے بھی کم ہے۔

مزیدخبریں