کچہ ابھی تک "" پکے ""آپریشن سے محروم

تین صوبوں کے سنگم پر واقع دریائے سندھ سے ملحقہ کئی سو کلو میٹر پر محیط کچے کا ایریا پچھلی تقریباً تین دہائیوں سے وفاقی اور تین صوبائی حکومتوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ان حکومتوں کی جانب سے متعدد بار کچے کو ’’فتح‘‘ کرنے کے دعووں کے باوجود آئے روز یہاں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس سے ان دعووں کی قلعی کھلنے کے ساتھ ساتھ عوام میں عدم تحفظ کا احساس بھی بہت تیزی سے بڑھ جاتا ہے جس کے باعث علاقے کے لوگ کچہ آپریشن کو اب ’’مشن امپاسیبل‘‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔تقریباً دو ہفتے قبل پولیس کی جانب سے ایک ’’مقابلے‘‘ میں چار ڈاکؤوں کو پار کرنے کے فوراً بعد ان ڈاکؤوں کی جانب سے فوری رد عمل کے طور پر چار پولیس والوں کو شہید کرنے کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کچے کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکؤوں کی جانب سے دو پولیس گاڑیوں کو راکٹ لانچر کے ذریعے ہٹ کر کے بارہ پولیس اہلکاروں کو شہید اور چھ،سات کو شدید زخمی کر دیا گیا جو کچے کے علاقے میں ایک ہی حملے میں پولیس شہادتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جس سے پورے ملک میں تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔پولیس کے ان جوانوں کی شہادت کے بعد حکمرانوں کی جانب سے ایک بار پھر وہی روائتی بیان بازی کا سلسلہ ہے جس میں اب ان ڈاکؤوں کو مکمل قلع قمع کرنے کے دعوے پھر سے شروع کر دیئے گئے ہیں۔
کچے میں بد امنی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ئی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کئی دہائیاں گزر جانے اور مختلف اوقات میں پندرہ سے زائد آپریشن ہونے کے باوجود کچے میں ابھی تک امن قائم قائم نہیں ہو سکا۔جس کی بڑی وجہ کچے میں موجود وہ ’’ا ن کمانڈ‘‘ ہزاروں ایکڑ سرکاری زمینیں ہیں جن پر قبضہ گروپ کے ڈاکؤوں کے ساتھ ساتھ بعض سردار اور سرکاری افسروں نے بھی اپنی ناجائز عملداری قائم کر رکھی ہے اور ہر سال ان زمینوں پر وہ گندم کاشت کر کے کروڑوں روپے کماتے تھے ۔لیکن جب بعض سرکاری افسروں نے یہ سوچا کہ اس گندم پر ان ڈاکؤوں کا کوئی حق نہیں ہے اور اس گندم پر سارا حق صرف انہیں کا ہے ،تو اس کیلئے گندم کی فصل تیار ہونے پر وہاں امن و امان قائم رکھنے کے نام پر آپریشن کا آغاز کیا گیا ۔ان ڈاکؤوں کی ملکیت گندم پر قبضے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ اس اس کے بعد کچے میں امن قائم نہ ہو سکا۔شائد آپ سب کے علم نہ ہو کہ پچھلے کئی سالوں کے دوران یہ آپریشن صرف گندم کی فصل تیار ہونے پر ہی کیا جاتا رہا ہے جبکہ باقی سارا سال وہاں امن قائم رہتا تھا۔پولیس آپریشن سے تنگ آ کر ان ڈاکؤوں نے گندم ہاتھ سے نکل جانے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں اغواء برائے تاوان شروع کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان ڈاکؤوں نے جدید ترین اسلحہ خریدناشروع کر دیا جن میں راکٹ لانچر سمیت ایسی جدید ترین اسلحہ بھی شامل تھا جو کہ ہماری پولیس کے پاس نہ تھا جس کے باعث ہماری پولیس اور سیکورٹی فورسز ابھی تک ان ڈاکؤوں کو مکمل مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق کچے کے ان ڈاکؤوں کے پاس ایسا جدید امریکی اسلحہ بھی موجود ہے جو کہ مبینہ طور پر انہوں نے افغانستان سے خریدا ہے اور اس اسلحہ کو چلانے کی تربیت بھی انہوں نے مبینہ طور پر افغانستان میں موجود امریکیوں سے لی تھی۔ڈاکؤوں کے جدید اسلحہ کا مقابلہ کرنے کیلئے بعض اطلاعات کے مطابق پولیس کو وہ اسلحہ بعض قانونی پیچیدگیوں کے باعث نہیں دیا جا رہا ۔
آپ کو یاد ہو گا کہ کچے کے علاقے میں سب سے پہلے بوسن گینگ نے اپنی کارروائیاں شروع کی تھی جسے پولیس نے بڑی مشکل سے مارا تھامگر وہاں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ بعد میں وہاں چھوٹو گینگ،اندھڑ گینگ،شر گینگ،کوش گینگ اور پٹ عمرانی گینگ سمیت کئی چھوٹے موٹے گینگ پیدا ہوئے جنہوں نے اغواء برائے تاوان سمیت ہنی ٹریپ کے ذریعے بھی لوگوں کو بہلا پھسلا کر اغواء کرنا شروع کر دیا۔ رحیم یار خان پولیس نے ہنی ٹریپ کے ذریعے اب تک سینکڑوں لوگوں کو اغواء ہونے سے بچایا مگر بد قسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔کچے کے علاقے میں 2016ء میں جب چھوٹو گینگ نامی ایک گینگ نے بہت ات مچا رکھی تھی تو اس وقت فوج نے ’’ضرب آہن‘‘ نامی ایک گرینڈ آپریشن لانچ کیا تھا اور اس آپریشن کے دوران فوج کے جوانوں نے چھوٹو سمیت کئی ڈاکؤوں کو زندہ گرفتار کر کے یہ دعوی کیا تھا کہ کچے میں اب مکمل امن و امان قائم کر دیا گیا ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد اس علاقے میں نا صرف ڈاکؤوں کے مزید گینگ پیدا ہونے لگے بلکہ کافی تگ و داؤ کے بعد پکڑا جانے والا چھوٹو بھی کمزور پراسیکیوشن کے باعث با عزت رہا ہو گیا ۔ کئی بار پنجاب،بلوچستان اور سندھ پولیس نے مشترکہ آپریشن بھی کئے اور پنجاب و سندھ پولیس نے ان ڈاکؤوں کے سروں کی قیمت بھی کروڑوں روپے رکھی جبکہ کچھ ہی عرصہ قبل صدر آصف زرداری بھی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ایک خصوصی اجلاس شریک ہوئے اور آپریشن بارے ایک خاص حکمت ترتیب دی گئی ،مگر بد قسمتی سے ابھی تک اس کاآغاز نہیں ہو سکا۔ کچے کے علاقے میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران پولیس کی شہادتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور صرف پچھلے دو ہفتوں کے دوران کچے کے علاقے پہلے تین اور اب پولیس کے بارہ جوانوں کی شہادت ہوئی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ان جوانوں کا نماز جنازہ جمعہ کی دوپہر رحیم یار خان پولیس لائن میں ادا کی گئی جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی،آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انور،ہوم سیکرٹری نور الامین مینگل سمیت پولیس،آرمی ،سیکورٹی فورسز سمیت بہاولپور ڈویڑن کے اعلی انتظامی آفیسرز نے شرکت کی اور اطلاعات کے مطابق اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں کچے میں ایک آپریشن بارے ایک نئی حکمت عملی تیار کی گئی ۔

ای پیپر دی نیشن