ریکوڈک سونے کا پہاڑ ہے جس میں بہترین کاپر اور جوہری ذرات ہیں۔ اس کی مالیت کئی ٹریلین ڈالرز ہے۔ اس کا یہ پتھر اندھیرے میں روشن چراغ ہے۔ جس میں جابجا سونے کے ذرے چمکتے ہیں اور چھوٹے سے پتھر کے ٹکڑے میں کئی سونے کی پلیٹ جڑی ہوئی ہیں۔ اس پہاڑ کا سلسلہ وسط ایشیا سے شروع ہوتا ہے۔ افغانستان اور ایران سے ہوتا ہوا بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام تنجیل پر ختم ہوتا ہے۔ تنجیل کے مقام پر ریکوڈک میں سونا، کاپر اور جوہری ذرات بہترین اور وافر ترین ہیں۔ ایران پچھلے 30 سال سے ”سرچشمہ“ کے مقام سے سونا نکال رہا ہے جس نے ایران کی ڈوبتی معیشت کو بھرپور مثبت سہارا دیا ہے۔ پاکستان کا بلوچستان، قبائلی پہاڑی بلکہ میدانی علاقے بھی بہترین معدنیات سے مالامال ہیں لہٰذا بھارت سمیت عالمی لٹیرے یعنی عالمی اتحادی ممالک مذکورہ معدنی خزانوں پر قبضے اور تسلط کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہیں۔ گو آج ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور نہیں مگر عالمی لٹیرے اسی انداز میں پاکستان کے خزانوں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔ کھیوڑا میں دنیا کے بہترین نمک کے پہاڑ ہیں۔ انگریز راج کے دوران کھیوڑا نمک مقامی اور دیسی باشندوں کے لئے شجر ممنوعہ تھا۔ سارا نمک برطانیہ جاتا جہاں سے دنیا میں ترسیل ہوتی تھی۔ ریکوڈک خزانے کی مقدار کا ابتدائی اندازہ ہے کہ یہاں سے 56 سال متواتر کئی ٹن سونا روزانہ کی بنیاد پر نکالا جا سکتا ہے۔ کان کنی minnig صوبائی اختیاری ادارہ ہے۔ جو مقامی طور پر قبل قیام پاکستان کے وقت بنائے گئے صوبائی قوانین و ضوابط میں معمولی تبدیلی کے ساتھ کام کرتا رہا ہے جبکہ سرکاری سطح پر کان کنی (مائننگ) قومی ترجیحاتی پلان کا کبھی حصہ نہیں رہی لہٰذا وفاقی اور صوبائی سطح پر مائننگ کے نئے اور مضبوط قوانین و ضوابط کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور وقت خاموشی سے گزرتا گیا۔ اس دوران عالمی لٹیرے بلوچستان کی معدنی دولت ہتھیانے کے لئے سوچ بچار اور حیلے بہانے سے مختلف سروے کرتے رہے۔ اس ضمن میں عالمی لٹیروں نے عظیم تر (greater) بلوچستان اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی حکمت عملی اپنائی۔ رہی سہی کسر بینظیر نے پوری کر دی جس نے سرکاری اداروں کی نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی اپنائی جس سے وفاقی حکومت غیر موثر اور صوبائی حکومتیں منہ زور ہو گئیں۔ یہ پالیسی ایسی ہے جیسے کوئی ہارا ہوا جواری اپنا گھر بار بیچ دے۔
بلوچستان حکومت نے غیر ملکی BHP کمپنی کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرنے JV (joint venture) کے لئے بات چیت کا آغاز 1991ءمیں کیا۔ BHP نے بلوچستان ترقیاتی ادارہ BDA کے ساتھ JV معاہدہ 29 جولائی 1993ءمیں کیا۔ یہ معاہدہ مشترکہ طور پر کام کرنے کی یادداشت تھی جس کو شیجوا
(Chaghi Hills Exploration joint Venture Agreement)
کا نام دیا گیا۔ بنیادی طور پر مذکورہ بالا معاہدہ کان کنی مائننگ میں تکنیکی تعاون کی یادداشت تھی مگر BHP نے مذکورہ یادداشتی معاہدہ جنوبی افریقی منکور Mincore کمپنی کو 60 ملین ڈالرز میں بھیج دیا۔ منکور کمپنی نے 2006ءمیں یہ معاہدہ TCC کو 260 ملین ڈالرز میں فروخت کر دیا۔ TCC (Teihyan copper company) نے حکومت پاکستان کو فریق بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے مقدمہ دائر کر دیا۔ فی الحقیقت TCC کا موقف تھا کہ پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت ریکوڈک میں مائننگ وغیرہ کرنے کی حقدار نہیں ہیں۔ یہ حق TCC کے سوا کسی اور کا نہیں لہٰذا فی الوقت پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکثر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس اہم قومی معاملے میں اولڈ راوین بیرسٹر احمر بلال صوفی کام آئے جنہوں نے بلوچستان حکومت کے وکیل کی حیثیت سے مذکورہ مقدمہ جیتا اور عالمی ثالثی کونسل نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کو ریکوڈک میں مائننگ وغیرہ کرنے کی اجازت دے دی مگر مذکورہ ثالثی ٹربیونل نے بلوچستان حکومت کو کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں ہونے والے ترقیاتی امور سے باقاعدہ آگاہ رکھے۔ الحمد للہ مقدمہ میں جیت بہت بڑی کامیابی ہے مگر مکمل کامیابی کے لئے مذکورہ ریکوڈک خزانہ کو جلد از جلد قومی اثاثہ قرار دیا جائے اگر اس ضمن میں موجودہ حکومت غفلت برتے تو ہمارے دردمند، محب وطن اور قابل قدر وکلا مشترکہ طور پر عدالتی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ اتنا اہم قومی اثاثہ ہے کہ جس پر عدالت عظمی سوموٹو بھی لے سکتی ہے۔ بیرسٹر احمر بلال صوفی قائداعظم کے ساتھی اور تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر ایم اے صوفی کے بیٹے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں قائداعظم کے عظیم ساتھی قاضی عیسیٰ کے بیٹے فائز عیسیٰ قابل قدر وکیل رہے ہیں۔ اسی طرح اکرم شیخ، انور خالد، حفیظ پیرزادہ اور دیگرکو بھی ریکوڈک خزانے کو قومی اثاثہ قرار دینے کے لئے مشترکہ عدالتی و حکومتی جدوجہد کرنا چاہئے۔ شریف اور چودھری برادران کے علاوہ دیگر سیاستدان بھی اپنے طور ریکوڈک خزانہ کو قومی اثاثہ قرار دینے کے لئے کام کریں۔ فی الحقیقت ریکوڈک ایک قومی اور عوامی اثاثہ ہے جس کے لئے عوامی تحریک بھی ضروری ہے۔ اگر ریکوڈک کو قومی اثاثہ قرار دے دیا جائے تو عالمی لٹیروں کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔