اسلام میں نظریہ¿ تعلیم کی اساس!

Dec 27, 2012

سید روح الامین

ایک عمدہ نظام تعلیم میں عمدہ کتب کا مہیا کیا جانا مفید ہوتا ہے۔ کتاب ایک ایسا پھلوں کا باغ ہے جسے آستین میں رکھا جا سکتا ہے۔ کتاب کو مُردوں کی زبان اور زندوں کی آواز کہا گیا ہے۔ الجاحظ لکھتا ہے کہ ”کتاب کا حاصل کرنا آسان اور ارزاں ہے“۔ علم حاصل کرنے کیلئے کتب کے ساتھ ساتھ عالم اساتذہ کا ہونا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پہلے ہر طالب علم کیلئے لازمی ہوتا تھا کہ وہ کسی استاد کی خدمت میں رہ کر علم حاصل کرے۔ بغیر استاد کے عموماً یہ تصور ہوا کرتا تھا کہ ”بے استاد طالب علم بے دین ہے جس نے شیطان کو اپنا رہنما بنا لیا ہے“۔ حضرت امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے اسے وہ امتیاز حاصل نہ ہو گا جس کی اسے ضرورت ہے“۔ گویا استاد کا وجود‘ استاد کی سیرت‘ اس کے فضائل اور عمومی رویے شاگرد کی تربیت اور تہذیب نفس میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اس سلسلے میں ہم حضور نبی اکرم کی مثال دیتے ہیں جو اپنی امت کے راہبر بھی تھے اور پیغمبر تھے۔ استاد بھی اپنے شاگردوں کیلئے ایک راہبر کی حیثیت رکھتا ہے حضور کا حکم ہے کہ ”مسلمان کو تمام عمر حصول علم میں صرف کرنی چاہئے“۔ اسلام میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب ورزش کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ طلبہ دماغی کاوش کے بعد تازہ دم ہو جائیں اگر ایک طالب علم کو کھیل سے روکا جائے اور مسلسل مطالعے کیلئے مجبور کیا جائے تو اس کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔ اس کی قوت فکر اور دل کی تازگی برباد ہو جائے گی اور مطالعہ اس کیلئے بیماری بن جائے گا اور اس کی زندگی پر فکر و پریشانی کے بادل چھا جائیں گے اور وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سبق سے جان بچائے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ہدایت بھیجی تھی کہ ”بچوں کو ”تیرنا‘ نیزہ بازی اور شہ سواری سکھائی جائے دوڑیں بھی طلبہ کے ورزش کھیلوں میں شامل کی جائیں“ اسلام میں طالب علم کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اس کا اخلاق عمدہ ہو حضرت امام غزالی کو یقین ہے کہ ”جس طالب علم کے طور طریقے خراب ہوں گے وہ کبھی علم سے مستفیض نہیں ہوتا“۔ شاگرد کو ایک استاد کی تعظیم و تکریم کرنی چاہئے اور اس کی نصیحت پر اسی طرح عمل کرنا چاہئے جس طرح ایک بیمار اپنے طبیب کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔ ایک حدیث شریف ہے کہ ”جو تحصیل علم کیلئے سفر کرتا ہے اور اس سفر میں جان بحق ہو جائے تو وہ شہید ہوتا ہے“ ابن خلدون لکھتا ہے کہ ’علم میں وسعت اور عمق حاصل کرنے کیلئے طالب علم کیلئے سفر لازمی ہے اور دوران سفر جس قدر مشہور علماءسے ملاقات ہو سکے ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے“ کسی ملک کا نظام تعلیم اس کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے اپنے قومی تشخص کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف شعبوں میں ”مقابلہ انسان کیلئے قدرتی ہے۔ مقابلے سے بچہ ساتھیوں سے فرمانبرداری‘ چستی‘ نیکی‘ محنت‘ قابلیت وغیرہ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ مقابلہ بہترین کام کرنے والوں سے برابری کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے اور بچہ ہر طرح اپنی تکمیل کرتا ہے۔ تعلیم میں جس چیز کی احتیاط کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں خرابی نہ آ جائے مثلاً حسد کا جذبہ نہ پیدا ہونے پائے کیونکہ حسد دوسروں کی کامیابی کی بداندیشی ہے۔ اسلام بھی اس نظریئے کا حامل ہے اسلام میں تعلیم کے بنیادی اصول یہی ہیں کہ انسان ایک دوسرے سے حسد نہ کرے اور اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھے۔ اسلام میں نظریہ تعلیم کا بنیادی تصور یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے زندگی بسر ہو اللہ کی خوشنودی کیلئے جینا اور مرنا ہو۔ علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں کہ انسان جب اپنے رب کو پہچان لیتا ہے خدا کی وحدانیت کو سمجھ لیتا ہے تو پھر اس کے دل سے تمام خوف نکل جاتے ہیں اس کا ہر عمل رضائے الٰہی کا تابع ہو جاتا ہے اسلئے علامہ مرحوم نے جدید علوم حاصل کرنے سے پہلے مذہبی تعلیم کو لازمی اور ضروری قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک لیکچر میں فرمایا کہ ”آج کے نوجوان نے مغربی لٹریچر کے نشے میں ہر وقت سرشار رہ کر اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔ عقلی و ادراکی لحاظ سے وہ مغربی دنیا کا غلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روح اس کی صحیح القوام خودداری کے عنصر سے خالی ہو چکی ہے جو اپنی قومی تاریخ اور قومی لٹریچر کے مطالعہ سے پیدا ہوئی ہے۔“ تعلیم کا مقصد حقائق اشیاءکا علم حاصل کرنا اور مظاہر فطرت کی تسخیر ہے مگر زندگی کو عقل بے مہار اور فکر بے لگام نہیں کر لینا چاہئے انسان کو تاریخ کے مطالعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ گذشتہ واقعات کے نتائج سے مستقبل کو سنوارنا چاہئے۔ اجتماعی زندگی کے سفر میں قابل اعتماد رفیق اور رہنما تاریخی شعور ہوتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے کہا ہے کہ ”تعلیم کا مقصد و منتہا اس ذہنی ورزش کا انتظام ہے کہ اس طرح انسان کی تمام پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر اور ان سب طاقتوں کو بیدار کیا جائے جو قدرت نے اس کے اندر ودیعت کر رکھی ہیں“ چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے واقفیت اور نئے علوم و فنون سے واقفیت کیلئے دروازہ کھلا رکھا جانا چاہئے۔ حضور کا فرمان ہے کہ ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑےق‘ علامہ اقبال نے خودی پر بحث کرتے ہوئے بہت کچھ کہا ہے ان کے خیال میں خودی کی نشوونما بہت ضروری ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ”خالق کائنات نے انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں‘ بے پایاں اور پراسرار کیفیتیں پیدا کر رکھی ہیں۔ ان صلاحیتوں‘ طاقتوں اور کیفیتوں کو باہم ایک دوسرے سے پیوستہ رکھنے والی چیز ہے خودی“۔
دوسرے الفاظ میں خودی دراصل انسانی شعور کا مرکزہ ہے اور یہ مرکزہ فطرت کی طرف سے ودیعت کردہ انسانی صلاحیتوں‘ طاقتوں اور کیفیتوں کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور ان کو منتشر و پراگندہ ہونے سے بچاتا ہے“۔ اسی لئے علامہ اقبال نظریہ تعلیم بیان کرتے ہوئے بنیادی اصولوں میں خودی کی پرورش‘ تربیت و بیداری اور تعمیر و استحکام کا ذکر کرتے ہیں“ چنانچہ تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہئے کہ مسلمان کی خودی متحرک ہو جائے سر پرسی نن (SIR PERCY NUN) مشہور انگریز ماہر تعلیم لکھتے ہیں کہ ”تعلیم کا مقصد انسان کی انفرادیت کی مکمل نشوونما ہے“۔ علامہ اقبال کا فلسفہ خودی کم و بیش ہی انفرادیت ہے۔ علامہ کے خیال میں ”کامل طریقہ تعلیم کا منشا یہ ہے کہ نفس ناطقہ کی پوشیدہ قوتیں کمال پذیر ہوں“۔ اسلام میں نظریہ تعلیم کا تصور اس کے ماضی پر منحصر ہے قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات اور حضرت محمد کے عہد کے واقعات‘ ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قوم کی نشوونما میں ان اجتماعی احساسات‘ تجربات و روایات کا بنیادی حصہ ہے چنانچہ تاریخ پڑھنا اور اس سے سبق سیکھنا تعلیم کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے چنانچہ اس میں جدید علوم کے حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی یہ جدید علوم مذہب کے خلاف ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ علم حاصل کرنا تمدن اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

مزیدخبریں