کوئٹہ (بیورو رپورٹ + نوائے وقت نیوز) سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی سمیت 49 ارکان موجود تھے۔ خفیہ رائے شماری میں 47 ارکان نے تحریک کی حمایت میں اور ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور ڈپٹی سپیکر سید مطیع اللہ آغا 26 دسمبر سے ہی سپیکر بلوچستان اسمبلی بن گئے ہیں۔ حکومت بلوچستان کے مطابق اسلم بھوتانی کو تحریک عدم اعتماد کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کا خصوصی اجلاس مقررہ وقت سے نصف گھٹنے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سید مطیع اللہ آغا کی صدارت میں تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا۔ اجلاس میں مولانا عبدالواسع، میر عاصم کرد گیلو، سید احسان شاہ، میر اسد اللہ بلوچ، عبدالرحمن مینگل، انجینئر زمرک خان، علی مدد جتک، میر شاہنواز مری، حاجی محمد نواز، جعفر جارج، عرفان کریم، عین اللہ شمس، مولوی محمد سرور موسیٰ خیل، مولانا عبدالصمد اخونزادہ، اسفندیار کاکڑ، سردار مسعود لونی، بابو رحیم مینگل، غلام جان بلوچ، ملک سلطان محمد ترین، ظفر اللہ زہری، حسن بانو، غزالہ گولہ، زرینہ زہری اور ڈاکٹر فوزیہ مری کی جانب سے سپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف برطرفی کی مشترکہ قرارداد صوبائی وزیر صنعت و حرفت سید احسان شاہ نے ایوان میں پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مہذب معاشرے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے، عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضامن اسمبلی ہوتی ہے اسی طرح اسمبلی کا کسٹوڈین غیر معمولی خصوصیات کا حامل اور سیاسی و پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر صرف آئین، قانون اور صوبے کی روایت کی پاسداری کا امین ہونے کے ناطے ایوان کی زبان ہوتا ہے مگر ان حقائق کے برعکس 13 نومبر 2012ءکو حکومت کے مشورے پر گورنر کی جانب سے بلائے جانے والے اجلاس کو ماورائے آئین سپیکر کی جانب سے روکنے کیلئے ناقابل فہم رکاوٹ کھڑی کی بحیثیت قائم مقام گورنر وہ صرف وفاق یا صدر کی جانب سے تفویض کردہ روزانہ کی بنیاد پر ناگزیر معاملات نمٹانے میں آئینی کردار کی پاسداری کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے ایسی صورتحال میں ایک علامتی گورنر ایک مجاز اتھارٹی کا استحقاق مجروح کر کے اسمبلی اجلاس کو طلب کرنے کا حکم منسوخ کرنے کا مرتکب ہوا جس سے صوبائی حکومت کے آئینی اداروں میں بداعتمادی اور منفی تاثر عام کرنے کی کوشش کی گئی موجودہ سپیکر کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ میں غیر مرئی عدم اعتماد کے اظہار کے بعد کسٹوڈین کی حیثیت سے سپیکر کی صدارت میں اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی فاسق تصور ہونا فطری عمل ہے بلکہ حکومت کی جانب سے شعوری طور پر سپیکر اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کے فقدان کا مظہر بھی ہے لہٰذا ایسی صورت میں یہ ایوان متفقہ طور پر سپیکر محمد اسلم بھوتانی کو ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ قرارداد پر سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع، انجینئر زمرک خان اچکزئی اور صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور میر عبدالرحمن جمالی، حاجی علی مدد جتک، غزالہ گولہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے قرارداد کی حمایت کی اور سپیکر محمد اسلم بھوتانی کے رویئے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موصوف نے غیر جمہوری کردار ادا کیا۔ ایوان میں موجود تمام نمائندے عوام کے ووٹوں سے یہاں آئے ہیں، جمہوریت کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ یہاں جس طرح کا سیاسی ڈرامہ کھیلتے ہوئے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی وہ قابل مذمت عمل ہے۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے کی بات ہے تو سپریم کورٹ سمیت تمام ادارے قابل احترام ہیں لیکن امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں اگر اس وقت ملک کے دیگر حصوں کی نسبت دیکھا جائے تو سب سے زیادہ حالات بلوچستان میں بہتر ہیں اگر کسی صوبے میں کسی حکومت کی کارکردگی بہتر ہے تو وہ بلوچستان حکومت ہے۔ کراچی میں ایک دن میں 21 لوگ مارے جاتے ہیں اور ایک سال کے دوران 600 علمائے کرام نشانہ بنائے جاتے ہیں خیبر پی کے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں برسرپیکار جماعت کے سینئر رہنما سمیت کئی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن اس کی نسبت بلوچستان میں حالات اتنے خراب نہیں جتنا میڈیا پر بتانے کی کوشش کی جاتی ہے، جو قوتیں بلوچستان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں تو وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ بلوچستان میں آزادی اور علیحدگی کے نعرے بھی لگ رہیں اور تحریکیں بھی چل رہی ہیں جبکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پی کے میں یہ مسئلہ نہیں اس کے باوجود ہماری کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں موجودہ حکومت نے ریکوڈک کے مسئلے پر اصولی مﺅقف اپنایا اور بلوچستان کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی این ایف سی ایوارڈ ہماری جدوجہد کا ثمر ہے جو 65 سال میں کام نہیں ہوئے ہماری حکومت نے صرف پانچ سال میں کر کے دکھائے ہم نے این ایف سی ایوارڈ میں 65 فیصد کامیابی حاصل کر لی جس کے بعد ہمارے گرد گھیرا تنگ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی کبھی سپیکر تو کبھی چیف سیکرٹری کی جانب سے مسائل کھڑے کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جواز بناکر ہمارے خلاف مسائل پیدا کئے گئے حالانکہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اسمبلی نہیں حکومت کی بات کی تھی مگر اس کو بھی ایک بہانہ بنایا گیا۔ قبل ازیں قرارداد پیش کئے جانے کے موقع پر اپوزیشن لیڈر نوابزادہ طارق مگسی نے بولنے کی کوشش کی مگر انہیں ڈپٹی سپیکر نے بولنے کا موقع نہیں دیا جس پر ارکان اسمبلی صادق عمرانی اورجان علی چنگیزی نے بھی کھڑے ہوکر پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت چاہی مگر انہیں بھی اجازت نہیں دی گئی جس پر انہوں نے بولنے کی کوشش کی تو حکومتی ارکان نے زور زور سے ڈیسک بجائے اور بعض ارکان نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ایوان میں کان پڑی آﺅاز سنائی نہ دی پہلے اپوزیشن طارق مگسی بعدازاں میر صادق عمرانی اور جان علی چنگیزی ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے جس کے بعد برطرفی کی قرار داد پر خفیہ ووٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا مجموعی طور پر 48 ارکان نے رائے دہی کا حق استعمال کیا جبکہ 11 ارکان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جبکہ تین ارکان نے واک آﺅٹ کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی چونکہ اب اسلم بھوتانی متاثرہ سپیکر ہیں لہٰذا انہیں اپنے مﺅقف کی وضاحت کیلئے موقع دیا جاتا ہے اور اس کیلئے ایوان میں سیٹ نمبر 14 الاٹ کر دی گئی ہے تاہم سپیکر ایوان میں نہیں آئے جس پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی کہ پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی جائیں تاہم اس کے بعد بھی اسلم بھوتانی ایوان میں نہیں آئے جس پر ووٹنگ کے بعد ڈپٹی سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا کہ مجموعی طور پر 48 ووٹ کاسٹ کئے گئے جس میں سے 47 ووٹ برطرفی کی قرارداد کے حق میں جبکہ ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ اس موقع پر انہوں نے رولنگ دی کہ اب سپیکر محمد اسلم بھوتانی اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہے، انہوں نے 19 دسمبر کے بعد اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے تمام احکامات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ اجلاس میں بےنظیر بھٹو کی روح کو ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ بعدازاں اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسلم بھوتانی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت حکومتی اقدامات کو عدالت میں چیلنج کروں گا، کسی صورت اپنے مﺅقف سے دستبردار نہیں ہوں گا، عہدے آتے جاتے رہتے ہیں آئین اور عدالتی فیصلوں کا احترام ہونا چاہئے۔ عہدے میرے لئے معنی نہیں رکھتے۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سمیت حکومتی اقدامات کو عدالت میں چیلنج کروں گا۔ تحریک عدم اعتماد لانے میں جو غلط طریقہ اپنایا گیا اسے بھی چیلنج کروں گا۔ میں نے ارکان اسمبلی سے کہا تھا کہ وہ مجھے ہٹانا چاہتے ہیں تو ہٹا دیں لیکن اس کے لئے صحیح طریقہ اختیار کریں، ایسے کام نہ کریں جس سے انہیں خود شرمندگی اٹھانی پڑے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلم بھوتانی کی برطرفی پر دکھ ہے، کسی کے غم میں خوش نہیں ہو سکتا۔ آئندہ سپیکر کے لئے دوستوں سے مشورہ کریں گے۔