آرمی چیف کا قوم کے اعتماد اور اتفاق رائے پر پورا اترنے کا عزم اور وزیراعظم نوازشریف کے عملی اقدامات کے اعلانات

قوم کو دہشتگردی سے ضرور نجات دلائیں مگر آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کیخلاف واضح حکمت عملی پر سیاسی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی لعنت ہر صورت جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم قوم کے اعتماد اور اتفاق رائے پر پورا اتریں گے اور اس اعتماد و اتفاق رائے کو عملی اقدامات میں تبدیل کرینگے۔ انکے بقول سیاسی قیادت نے بہترین جوش و جذبہ کا مظاہرہ کیا ہے اور انتظامی اقدامات و اصلاحات کے ذریعہ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ان تمام اقدامات کا جائزہ لیا جو دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اٹھائے جا رہے ہیں۔ آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کا صفایا کرکے پاکستان کو محفوظ بنائیں گے۔
افواج پاکستان ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے اور اسے امن و امان کا گہوارہ بنانے کیلئے ہمیشہ سے پرعزم رہی ہیں اور گزشتہ چھ سال سے وہ دہشتگردوں کیخلاف برسر پیکار ہیں جس میں انہیں بھاری جانی اور مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں تاہم اب سانحہ پشاور نے دہشتگردی کی اس جنگ میں پوری قوم اور قومی قیادتوں کو یکسو کیا ہے اور اس تناظر میں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ پوری قوم کی جنگ بن چکی ہے جس میں اب قوم کے کسی بھی حلقے کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا جارہا‘ جیسے سوات‘ فاٹا‘ جنوبی وزیرستان اپریشن کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اب بلاامتیاز پاکستانی قوم ہی نہیں‘ عالمی برادری بھی دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان اور افواج پاکستان کی کاوشوں کو سراہ رہی ہے۔ گزشتہ روز یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون نے پھر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ دہشتگردی کی جنگ میں عالمی برادری پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ پاکستان کے اندر تمام قومی سیاسی قیادتوں میں مثالی ہم آہنگی کی فضا قائم ہوئی ہے اور وزیراعظم کی پشاور اور اسلام آباد میں طلب کی گئی آل پارٹیز پارلیمانی کانفرنس میں عمران خان سمیت تمام قومی قائدین نے یکسو ہو کر وزیراعظم نوازشریف کے دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق ہر اقدام اور فیصلہ کی تائید کی ہے حتیٰ کہ فوجی افسروں کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل کا معاملہ بھی خوش اسلوبی اور اتفاق رائے سے طے پایا ہے جسے عملی قالب میں ڈھالنے کیلئے حکومتی قانونی ٹیم نے مسودۂ قانون کی تیاری پر کام شروع بھی کر دیا ہے۔ جمعۃ المبارک کے روز وزیراعظم نے خود بھی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرکے پارلیمانی کانفرنس کے فیصلوں کو عملی قالب میں ڈھالنے کے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کے فنڈز منجمد کرنے کے حوالے سے سٹیٹ بنک اور دیگر متعلقہ حکام کو ضروری ہدایات بھی جاری کیں۔ اس صورتحال میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب افواج پاکستان قومی تائید و حمایت سے یکسو ہو کر دہشت گردی کے خاتمہ کا فیصلہ کن مرحلہ بھی طے کرلیں گی۔ صدر ممنون حسین نے بھی گزشتہ روز زیارت بلوچستان میں نو تعمیر کردہ قائداعظم ریذیڈنسی پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں دشمنوں کیخلاف مل کر لڑنا ہوگا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کا تشکیل کردہ سیاسی جرگہ بھی ملک میں امن و امان کی مکمل بحالی کیلئے سرگرم عمل ہے اور گزشتہ روز آرمی پبلک سکول پشاور کے دورے کے بعد سراج الحق‘ رحمان ملک اور میرحاصل بزنجو نے دہشت گردوں کو باور کرایا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی راہ پر آجائیں۔ اسی طرح سیاسی جرگے نے افغانستان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ فضل اللہ سمیت تمام دہشت گردوں کو 24 گھنٹے کے اندر اندر پاکستان کے حوالے کر دے چنانچہ قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا میں قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل نجات دلانے کی عملی فضا استوار ہو چکی ہے جس میں آئین اور قانون کے دارئے میں رہتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جاتے رہے تو ملک کے دوبارہ امن و امان کا گہوارہ بننے کی منزل اب کوئی زیادہ دور نہیں رہی۔ تاہم قومی یکجہتی کی اس جذباتی فضا میں اگر آئین و قانون سے متجاوز اور متصادم اقدامات کو بھی جائز سمجھ لیا گیا تو حالات معمول پر آنے کے بعد یہ اقدامات آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو سابق جرنیلی آمر ضیاء الحق جیسی ذہنیت کے مطابق ردی کی ٹوکری میں پھینکنے پر منتج ہو سکتے ہیں۔ البتہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمہ کے جو بھی اقدامات ممکن ہو سکتے ہیں‘ ان سے قطعاً گریز کیا جائے نہ کسی لیت و لعل کا مظاہرہ کیا جائے۔
افواج پاکستان ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیساتھ ساتھ کسی اندرونی خلفشار یا بدامنی پر قابو پانے کیلئے بروئے کار لانے کی آئینی گنجائش یقیناً موجود ہے اور آئین کی دفعہ 245 کے تحت کوئی بھی صوبائی حکومت اور اسکے ماتحت انتظامیہ اپنے علاقے میں سول ایجنسیوں کے کنٹرول سے باہر ہونیوالے کسی انتشار اور خلفشار پر قابو پانے کیلئے افواج پاکستان کی خدمات حاصل کر سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں کیا بھی جاتا رہا ہے۔ تاہم فوج کی ان ذمہ داریوں کی حدود و قیود متعین ہیں جن سے کسی قسم کا تجاوز بہترین قومی مفادات کا تقاضا سمجھ کر قبول کیا جائیگا تو پھر اس تجاوز کو روکنا ناممکنات میں شامل ہو جائیگا۔ فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل کی بہترین قومی مفادات کے تحت قبولیت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ بے شک ان عدالتوں کی دو سال کی میعاد متعین کرنے پر اتفاق ہوا ہے مگر عدل و انصاف سمیت ہر حکومتی سیاسی معاملے میں فوج کے عمل دخل کا معاملہ دو سال بعد فوج کو ناگزیر سمجھنے کی فضا بھی مستحکم بنا سکتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ آج ہی جذباتیت سے ہٹ کر اس فیصلے کے حسن و قبح کا مفصل جائزہ لے لیا جائے تاکہ آج انگلیوں سے ڈالی گئی گرہیں کل کو دانتوں سے کھولنے کی نوبت نہ آئے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی اسی تناظر میں فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل کے معاملہ کا جائزہ لینے کیلئے 3جنوری کو اپنا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ فوج کے آئینی اختیارات سے متعلق اس معاملہ پر کوئی قطعی فیصلہ سنیئر آئینی اور قانونی ماہرین اور وکلاء تنظیموں کی ٹھوس مشاورت سے ہی طے کیا جائے تاکہ کل کو کسی قسم کی آئینی اور قانونی الجھنیں پیدا نہ ہو سکیں۔ ہمیں جہاں ملک کو دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلا کر امن وآشتی کا گہوارہ بنانا ہے‘ وہیں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو بھی یقینی بنانا ہے‘ ورنہ اس وطن عزیز کو پھر سے سرزمین  بے آئین بنانے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
بھارتی فورسز کی شکر گڑھ سیکٹر پر فائرنگ
بھارتی سکیورٹی فورسز نے شکر گڑھ سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کی۔ ترجمان رینجرز کے مطابق پنجاب رینجرز کی بھرپور کارروائی سے بھارتی گنیں خاموش ہو گئیں۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
پاکستان اندرونی طور پر دہشت گردی کا شکار ہے۔ حال ہی میں دہشت گردوں نے پشاور میں 135 بچوں کو شہید کیا۔ پاک فوج دہشت گردوں اور انکے حواریوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ ان حالات میں بھارت کا سرحد پر اندھا دھند فائرنگ کرنا درحقیقت پاک فوج کی دہشت گردوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ بھارت دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب جب پاک فوج نے ان کا ناطقہ تنگ کر دیا ہے تو بھارت نے چالاکی سے سرحد پر فائرنگ کا سلسلہ پھر شروع کردیا ہے۔ بھارت کی طرف سے ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر اگلے چند دنوں میں مزید اشتعال انگیزی کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بھارت نہ صرف ان دہشت گردوں کی سرپرستی کر کے انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے بلکہ انہیں مالی سپورٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ اپنے دہشت گردوں کو بچانے کیلئے بھارت نے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ عالمی برادری بھارت کی اس کھلی بدمعاشی کا نوٹس لے اور اسے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے سے روکے۔ اگر عالمی برداری نے بھارتی جارحیت کا نوٹس نہ لیا تو پھر خطے میں حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں شکست کی خفت مٹانے اور دہشت گردوں کو بچانے پر ڈرامے بھارت کیلئے مہنگے ثابت ہونگے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...