آج پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کا ساتواں یوم وفات ہے۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں۔ ان کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں 27 دسمبر 2007ء کو بے دردی سے ساتھیوں سمیت خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس وقت حکومت نے اس سانحہ کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر عائد کی۔ بیت اللہ محسود کی بے نظیر بھٹو کو دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا کیس اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پر دائر ہوا جس کی سماعت جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘ جو اب جیل میں ہیں۔ درحقیقت بے نظیر بھٹو کے قتل کے مہروں کو پکڑا گیا ہے‘ سرغنہ یا ماسٹر مائنڈ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ بعض انگلیاں آصف علی زرداری کی طرف بھی اٹھتی رہی ہیں۔ مشرف نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ بلاول اپنے باپ سے پوچھیں، انکی ماں کا قاتل کون ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سال مرکز میں حکومت رہی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو قتل کیس منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہئیے تھا لیکن اس کیس میں مزید ابہام پیدا ہو گئے۔ میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات سے قبل اس عزم کا اعادہ کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آ کر بے نظیر کے قاتلوں کو بے نقاب کرینگے۔ بے نظیر بھٹو بلاشبہ ایک مدبر، لیجنڈ اور زیرک سیاستدان تھیں۔ انکے قتل پر تاریخ کی گرد نہ پڑنے دی جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے اسی دور میں بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کر کے ان کو منطقی انجام تک پہنچائیں تاکہ آئندہ کسی وزیراعظم پر ایسا برا وقت نہ آئے۔