”انسائیکلو پیڈیا جہان قائد“ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ

کل 25 دسمبر تھی۔ ایوان کارکنان پاکستان میں اس دن مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کیک کاٹتے تھے۔ ایک عجیب سرخوشی ان کے چہرے پر ہوتی تھی۔ سرخوشی خوشی سے آگے کی چیز ہوتی ہے۔ اب ان کی جگہ بہت محترم ”صدر“ محمد رفیق تارڑ نے لے لی ہے۔ وہ نظامی صاحب کی طرح ہر تقریب میں پہنچتے ہیں۔ پہلے صدارت مجید نظامی کرتے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف بھی باادب موجود ہوتے تھے۔ اب ہر تقریب کی صدارت ”صدر“ محمد رفیق تارڑ کرتے ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ ہم نے تو ان کا نام ہدیہ عقیدت کے طور پر پیش کیا تھا۔ شہباز شریف نے بھی ان کا نام پیش کیا۔ وہ آج طبیعت کی ناسازی کے باوجود تشریف لائے۔ 

ہم تقریب سے پہلے شاہد رشید کے کمرے میں جاتے ہیں۔ اب وہاں اسی کرسی پر تارڑ صاحب بیٹھے ہوتے ہیں۔ شریف برادران انہیں آج بھی صدر پاکستان کا پروٹوکول دیتے ہیں۔ شاہد رشید کے پاس برادرم علامہ عبدالستار عاصم کی کتاب ”جہاں قائد“ پڑی ہوئی تھی۔ یہ بلاشبہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اڑھائی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ایک ضخیم اور عظیم دستاویز ہے۔ آج سب سے بڑی تقریب قائداعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے یہاں ہو رہی تھی۔ کوئی پچیس خواتین و حضرات سے زیادہ لوگوں نے اظہار خیال کیا۔ تقریب میں موجود ہر عورت اور مرد قائداعظم کے لئے دل کی بات کرنا چاہتا تھا۔ یہ کمال کمپیئرنگ کرنے والے شاہد رشید کا ہے کہ انہوں نے بہ خوش اسلوبی اور جذبوں سے بھری ہوئی خاص خوبی سے اس معاملے کو نبھایا۔ جو باتیں انہوں نے خود کہیں وہ بھی ایک اچھی خاصی تقریر کی طرح تھیں۔ وہ ایک زمانے میں نظامی صاحب کے ساتھ نوائے وقت میں بھی رہے ہیں۔ ان کے بعد بھی نوائے وقت کے لئے وہ مطمئن ہیں اور دعا گو ہیں۔
یہاں علامہ عبدالستار عاصم بھی موجود تھے۔ لگتا تھا کہ جیسے ان کی کتاب کی تقریب پذیرائی ہو رہی ہے۔ ان کی اس زبردست کتاب کی تقریب پذیرائی یہاں انشااللہ عنقریب ہو گی۔
”جہان قائد“ کے لئے مجید نظامی نے چند سطریں لکھ کر عاصم صاحب کو اعزاز بخشا ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے منفرد رائے انہی کی ہے۔ انہوں نے اپنی اس گراں قدر مختصر تحریر کا عنوان رکھا ہے ”قومی نظریات کے فروغ کی موثر تدبیر“۔ وہ لکھتے ہیں ”اب تک حیات قائد کے حوالے سے لاتعداد کتابیں شائع ہوئی ہیں مگر قائداعظم پر علامہ عاصم کی کتاب ”انسائیکلوپیڈیا جہان قائد“ جیسی کتاب نظر سے نہیں گزری جس میں قائد کی زندگی کے تمام حالات و واقعات اور تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب سے قائداعظم پر تحقیق کرنے والوں اور طلبہ و طالبات کو بہت آسانی ہو گی۔ اور ہماری قومی روح کو جلا ملے گی۔ موجودہ حالات میں یہ کتاب قومی نظریات کو فروغ دینے میں موثر اور کارگر تدبیر ہے۔ اس کے علاوہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان اور کئی دوسرے دوستوں کی آرا شامل ہیں۔ مجھے بھی اس انوکھی سچی اور بڑی کتاب کے لئے لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز اور ولولہ انگیز کام ہے جسے کارنامہ کہنا چاہئے۔ ایسی تحقیقی معرکہ آرائی کم کم دیکھنے میں آئی ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ جہاں قائد کو جہان رنگ و بو بنانے والا کوئی عاشق ہے جس نے دیوانگی اور مردانگی سے گہرے والہانہ پن اور دلیرانہ بانکپن سے یہ کام کیا ہے۔ جس کی توفیق علمی اداروں کو نہیں ہوتی۔ وہ ایک بے قرار اور سرشار شخصیت کے مالک ہیں۔ اس ان تھک آدمی کی تھکن میں بروقت کوئی ایسی لگن گھلتی رہتی ہے جو اسے تازہ رکھتی ہے۔ میں لیلتہ القدر کو قائم ہونے والی مملکت پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہتا ہوں۔ اور بلاشبہ قائداعظم ایک وکھری ٹائپ کے عاشق رسول تھے۔ علامہ عاصم بھی ایک عاشق رسول ہیں اور اسی جذبے کی فراوانی سے اس نے ناممکن کام کر دیا ہے جسے ہزاروں لوگ مل کر بھی اس طرح سرانجام دے نہیں سکتے تھے۔ بڑی مستحکم مربوط مستند محیرالعقول اور محبوب شخصیت قائداعظم کو ہمارے سامنے اس طرح لا کھڑا کیا گیا ہے کہ ہم ان کے رفیق بن گئے ہیں اور منافقوں کے معاملات، محبتوں سے آگے کی چیز ہوتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا جہان قائد ایک مکمل موثر اور مستند کتاب ہے جس کا ہر لائبریری میں ہونا ضروری ہے اور مطالعہ پاکستان کے حوالے سے ہر طالب علم کے لئے لازمی ہے۔ اسے نصاب میں اس طرح شامل کیا جائے کہ اس کا پڑھنا سب کے لئے ضروری ہو۔
ایک بات 25 دسمبر کو ایوان کارکنان پاکستان میں ہونے والی سب سے بڑی تقریب کے حوالے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں میرے سمیت تمام معززین بشمول صدر رفیق تارڑ، ڈاکٹر رفیق احمد، لیاقت بلوچ، جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال، میاں فاروق الطاف، ڈاکٹر خالد عباس، چودھری نعیم چٹھہ، بیگم خالدہ چغتائی، ڈاکٹر ایم اے صوفی، کرنل سلیم ملک، محترمہ مہناز رفیع، ولید اقبال، پیر اعجاز ہاشمی، قیوم نظامی، ابراہیم طاہر، انور بغدادی، انجینئر ملک طفیل ڈاکٹر پروین خان اور شاہد رشید نے جس طرح اظہار خیال کیا۔ انہوں نے یقیناً عاصم کی کتاب جہان قائد پڑھی ہو گی، انہیں ایک بار پھر یہ کتاب پڑھنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...