”شہید جمہوریت“ کچھ یادیں‘ کچھ باتیں‘ کچھ تاثرات

Dec 27, 2014

مسرت لغاری ........ فکر جہاں

قارئین آج 27 دسمبر کا قیامت خیز دن ہے سال کے آخری چند دن باقی ہیں 6 سال پہلے اسم با مسمی بے نظیربھٹو کی زندگی کا یہ آخری دن تھا اسے سال کے آخری چند دن بھی نصیب نہ ہو سکے وہ اسکی زندگی کا لمحہ لمحہ قیمتی ترین تھا ہو سکتا ہے کچھ سال پہلے دسمبر کے ان آخری چند دنوں میں ملک کی خاطر وہ سب کچھ کر دیتی جو اس کے وجود میں آنے کے بعد ابتک نہ ہو سکا تھا لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ اس کی یاد میں آج کے دن دل اور آنکھیں ایک ساتھ سرخ آنسو بہا رہے ہیں ایسی سرخ مبتلاطم کیفیت میں سب سے پہلے فیض کے ایک زندہ شعر میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے مرکر امر ہو جانے والی شہید جمہوریت کی نذر کرتی ہوں....
جو رکی تو کوہ گراں تھی تو
جو چلی تو جاں سے گزر گئی
اسکے بعد اسکے ساتھ تین ملاقاتوں اور باتوں کی بات کرونگی لیکن سب سے پہلا واقعہ جو دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم، دنیائے نسوانیت کی غیر معمولی ذہین، غیر معمولی حد تک دلیر بلکہ شیر خاتون کے حوالے سے ہے وہ یہ ہے کہ....!
یہ گیارہ جون 1994ءکی پروقار سہ پہر تھی اسلام آباد کے سب سے بڑے ہوٹل کے ارد گرد غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے ٹریفک کڑے پہرے میں گزر رہی تھی تھوڑی دیر بعد محترمہ بےنظیر بھٹو گولڈ میڈلز دینے کی تقریب کی صدارت کرنے کے لئے آ رہی تھیں۔ گولڈ میڈلز زینب نور، تشدد کیس پر وزارت انصاف و قانون اور ہیومن رائٹس سیل نے ان چند صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو دیئے جا رہے تھے جنہوں نے زینب نور کے شوہر کے ہاتھوں اسکے جسم کے اندرونی نظام کو بجلی کے جھٹکے دے دے کر نیم مردہ کر دینے کی خبر پڑھ کر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا میرا شدید ترین ردعمل بھی اخبار میں حکومت کے نام خط کی صورت میں شائع ہوا جو براہ راست محترمہ وزیر اعظم کی نظروں سے گزرا حکومت نے فوری نوٹس لیا اور میرا نام گولڈ میڈل کےلئے منظور کر لیا گیا اس موقعہ پر محترمہ نے کیش انعام کا بھی اعلان کیا (شہادت کے بعد محترمہ کے کاز کو قلم کے ذریعہ آگے بڑھانے کے سلسلے میں مجھے وزارت ہیومن رائٹس کی طرف سے حکومت نے تیسرا بے نظیر لیڈر شپ ان ویمن ایوارڈ بھی دیا) بہر حال 11 جون کو وہ اندر باہر سے خوبصورت خاتون میرے سامنے موجود تھی انکے نرم ہاتھ کا مشفق لمس آج بھی میرے ہاتھ پر نقش ہے اور انکی زبان سے نکلے ہوئے پانچ الفاظ آج بھی میرا سرمایہ افتخار ہیں کہنے لگیں”I Salute Your Pen Power“ اور میں اس تمہید کے بعد کہنا یہ چاہتی ہوں کہ .... جس طاقت کو تم نے خراج تحسین پیش کیا تھا آج وہی طاقت تم پر کالم لکھتے وقت بھسم ہو گئی ہے بھری پری میری ادبی دنیا کے سارے لفظ مٹ گئے ہیں دکھ، درد، غم، صدمہ سارے لفظ، سارے نقطے اپنا مفہوم کھو چکے ہیں جمہوریت کی خاطر مٹ جانے والے تیسرے وجود کو خراج عقیدت، خراج تحسین اور آنسوﺅں کا نذرانہ دینے کیلئے میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا بلکہ اگر سچ کہوں تو یہ کیوں نہ کہہ دوں کہ تمہاری تعریف و توصیف اور میری قلمکاری سب کچھ مل کر مجھے بے بس کر رہے ہیں ۔ جذبہ حب الوطنی جمہوریت کی خاطر تیری دن رات کی قربانیاں، تیرے نابستہ روزگار باپ کی، تیرے دو بھائیوں اور خود تیری اپنی جان کی قربانی، میں کس کس پر کیا کیا لکھوں؟ وطن کی مٹی پر تونے اتنا لہو بہا دیا ہے کہ میرے قلم کو بھی سرخ رنگ لگ گیا ہے.... اسکی زبان کو بھی گنگ لگ گئی ہے تمہارے ساتھ اپنی تین ملاقاتوں کا حال کیسے لکھوں؟ تیری جیسی ہمت سب میں تو نہیں ہوتی؟بینظیر جوکہ پچھلی تمام اور آٰنے والی تمام صدیوں کی واحد دلیر ترین عورت تھی تجھ سے اپنے قاتل سے یہ بھی نہ پوچھا گیا کہ اسے کون اپنے بازوﺅں کے حصار میں تجھ تک بحفاظت پہنچا گیا؟ یا کس دشمن نے اسے تجھ پر حتمی وار کرنے کیلئے یہاں بھیجا ہے؟.... تو تو بس خاموش ہوگئی عمر کے چون سال گزارنے کے بعد ایک ہی بار خاموش ہوگئی .... لیکن سنو تیرے چاہنے والے، تیرے جانثار عوام خاموش نہیں ہیں ایک نہ ایک دن تیرے قاتلوں سے ضرور بدلہ لینگے ہم نے تیرے قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈالنے نہیں دیا تھا، مصنوعی ٹیلی فونک رابطوں کو بھی رد کر دیا اور اب بھی دعوے سے ہم اپنی محبوب و مطلوب لیڈر کا خون ناحق ضائع نہیں ہونے دینگے یقین کرو تیرے قاتل تیری شہادت کے بعد اندر سے جل رہے ہیں جبکہ ملک باہر سے جل رہا ہے اے کاش .... تیرے جیسی بے لوث شہید وطن کی طرح ہر پاکستانی یہ سمجھ لے کہ یہ ملک ہمیں کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ میں تیری عزت افزائی پر مشکور ہوں کہ مجھے میرے گولڈ میڈل کی اطلاع دینے کیلئے میرے گھر آپکے مشیر سید کامران حیدر رضوی خود آئے لیکن تیری شہادت کے گہرے زخم نے ہر لمحہ آنسوﺅں سے جل تھل رکھا ہے پاکستان تری جان تھا تبھی تو نے اسکو جان دیدی، تیرے بعد .... تیری پارٹی والوں کیلئے اپنے پیارے ملک کے وجود کو بچانا سب سے بڑا کام تھا .... انہیں اپنی ساری طاقتیں امریکہ کے ہر وار کو نا کام بنانے میں جھونک دینی تھیں لیکن تیری پارٹی کے حکمران شاید ایسا نہیں سمجھتے تھے ان کو یاد رکھنا چاہئے ہمارا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے جس نے ہمارے پورے ملک میں دہشتگردی .... کو ختم کرنے کی آڑ میں خود دہشت گردی شروع کر رکھی ہے وہ پاکستان کو افغانستان بنا دینا چاہتا ہے، عراق کیطرح تباہ کر دینا چاہتا ہے بلکہ اسی مقصد کے تحت اس نے یہ کام شمالی وزیرستان اور صوبہ سرحد میں شروع بھی کر کھا ہے ڈرون حملوں کی آڑ میں وہ اب آہستہ آہستہ ہماری ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اے کاش ایسے نازک وقت پر تم موجود ہوتیں سب سیاستدانوں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھتیں کہ ملک کو موجود دہشت گردی سے بچانے کے لئے کیا کیا چارہ کیا جائے؟ بخدا اب تو دعا کا وقت آگیا ہے.... سو دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو تمہاری روح پر بھی اسکی ہزاروں رحمتیں ہوں....ع
”آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے“

مزیدخبریں