لاہور (مرزا رمضان بیگ/ وقت نیوز) مختلف آبادیوں میں دہشت گردوں/ شدت پسندوں کی تلاش کا آپریشن مذاق بن کر رہ گیا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران شدت پسند لاہور میں متعدد بار خودکش حملوں، بم دھماکوں اور فائرنگ جیسی دہشت گردی کی کارروائیاں کر چکے ہیں۔ لاہور سٹی پولیس بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کے فوراً بعد سے شدت پسندوں کی گرفتاری کیلئے مقامی آبادیوں میں مسلسل سرچ آپریشن کر رہی ہے، ہر سرچ آپریشن میں درجنوں افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر اگلے ہی روز یا دو چار روز بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لاہور سٹی پولیس ان سرچ آپریشنز کے دوران کبھی بھی ایک شدت پسند گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ سی سی پی او لاہور نے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو درجنوں بار مراسلے بھی کئے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں کرائے پر گھر حاصل کرنے والے افراد بارے مکمل ریکارڈ رکھیں جبکہ ایس ایچ اوز نے کبھی بھی اپنے علاقے کے کرائے داروں کا ریکارڈ اکٹھا کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو اغوا کرنے والے ازبکستان کے وزیرستان میں مقیم ایک شدت پسند گروپ نے دہشت گردی کی کارروائی سے پہلے لاہور کی آبادی ویلنشیا ٹائون میں کرائے پر ایک گھر لیا اور یہاں رہ کر اغوا کی واردات کا سارا پلان تیار کیا مگر پولیس کو کچھ علم نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سنٹر مناواں پر حملہ کیا تو اس موقع پر سنٹر کے قریب کھیتوں سے ایک افغان دہشت گرد پکڑا گیا جس نے انکشاف کیا کہ وہ ایک ماہ سے فیکٹری ایریا کے علاقہ میں کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو دہشت گردوں کے ایک ساتھی کے بارے معلوم ہوا وہ پہلے شفیق آباد کے علاقے اور پھر رحمن پورہ وحدت کالونی کے ایک ہوسٹل میں فرضی نام پر ایک ماہ تک مقیم رہا اور اس دوران وہ سری لنکن ٹیم پر حملے کی پلاننگ کرتا رہا جبکہ مقامی پولیس اس دہشت گرد سے پوری طرح لاعلم رہی۔