سانحہ پشاور پر قومی آنسواور عزم

ویسے تو گذشتہ چھ برس میں موت کے سوداگروں کی سفّاکانہ کاروائیوں میں تقریبا بارہ ہزار چار سو نو بچوں کی شہادت کا صدمہ پہلے ہی کتنے گھروں کی رونقیں چھین چکا ہے وطن عزیز کے کسی بھی کونے میں دہشت گردی کی واردات اور ناحق خون ٹپکنے کی بات سے دل پہ ضرب لگتی ہے مگر 16دسمبر کو آرمی سکول پشاور کے نو سے سولہ سال عمر کے 132بچوں پر ڈھائی گئی بربریّت نے قومی ضمیر کو ایک گہری اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ لگتا ہے اس سانحہ نے سینوں میں پتھر رکھنے والوں کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اس داستان ظلم کی مذمت اور اس پر اظہار غم کیلئے ڈکشنریز کے الفاظ اورغیض و غضب کے انداز تنگ دامانی کا شکار نظر آتے ہیں کہ ایک سکول کے پھول موت کی دھول کی کیسے نذر ہو گئے۔ چشمِ تصور، نرم و نازک پھولوں کی خوشبو پربارود کی بدبو کی یورشوں کا تصور کرنے سے قاصر ہے ۔ گلشن انسانی کی نرم و نازک کلیوں پر بد مست ہاتھیوں کی یلغار کا خیال کرتے ہی دل و دماغ پر ملال چھا جاتاہے۔ آرمی سکول کے فرش پر خون کے بنے جوہڑ، گولیوں سے چھلنی دیواریں، بچوں کے اجسام کے چیتھڑے، اعضاءکے لوتھڑے، خون آلود کتابیں اورکاپیاں، تڑپتے لاشوں کی دھاریں اور قطاریں،جلے کٹے رخسار ، ہڈیوں اور بوٹیوں کے انبار ،قوم کے نونہال آخری لمحات کی تلخیوں کا سسکتی ماو¿ں سے تذکرہ کیے بغیر جبر کی ایک سیاہ تاریخ اپنے ہمراہ لیے ملک عدم کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔جنہیں صبح سویرے ماو¿ں نے دعاو¿ں اور بوسوں کی چھاو¿ں میں رخصت کیا تھا وہ مکتب سے ہی مرقد میں جا پہنچے وہ ماو¿ں کی گود کی طرف لوٹنے سے پہلے ہی گور میں پہنچا دئیے گئے ۔وہ کلاس روم کی کرسیوں سے ہی قبروں میں منتقل ہو گئے۔ وہ ہنگامہ محشر تھا جب گھروں سے اپنے بوٹوں میں آنے والے تابوتوں میں واپس بھیجے گئے۔ اس دلدوز سانحہ کو دیکھ کر یہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کا ش کہ وہ صبح کے وقت ہی اپنی ماو¿ں سے کہہ دیتے ۔
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
”ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے “ کہنے والے جگنو عین نصف النہار کے وقت ظلم و ستم کی سیاہ رات میں گم ہو گئے ہیں ۔بچوں کی چیخیں سکول کی چھتوں سے ٹکراتی رہیں اور والدین کی سسکیاں انہیں پشاورورسک روڈ پر رولاتی رہیں ۔انسانی جانوں کے عوض جنت کی ٹکٹ خریدنے والوں کو کیا خبر آرمی سکول میں کٹے جلے اعضاءکے ڈھیر میں ایک ماں اپنے جگر پارے کے اعضاءکیسے تلاش کرتی ہے۔ لال مسجد کے مولوی عبد العزیز کو کیا پتہ ہے کہ ہسپتال میں شہید بچوں کی لسٹ میں بچے کا نام آ جانے کے بعد پیچھے کیا بچتا ہے؟ اپنی انانیت کو شریعت بتانے والے کیا جانیں مادر علمی کا وقار اور ایک بچہ مومن کا تقدس کیا ہوتا ہے؟ دین کے نام پر دہشتگردی کرنیوالوں کو کیا خبر کہ ہمارے دین نے تو کسی بے گناہ کو خون میں نہلانا تو کیا اسے اسلحہ سے ڈرانا بھی حرام قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے گلے کاٹنے والے درندوں کو کیا خبر ہمارے رسول ﷺ نے تو بکری کے سامنے چھری تیز کرنےوالے پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اپنے خود ساختہ شریعت کیلئے اقتدار کے خواب دیکھنے والوں کو کیا معلوم ہمارے رسول ﷺ نے گھونسلوں میں بیٹھے پرندوں کو بھی امن کا لائسنس جاری کیا ہے ۔دھوکا کھائے دھماکے داروں بے دین بمباروں کو کیا خبر دل بہلانے کیلئے کیا گیا چڑیا کا قتل بھی قیامت کے دن ایک بڑا جرم قرار پائے گا ۔آتش و آہن کے ان حواریوں کوکیا ادراک کہ اسلام نے غیر مسلموں کو بھی اگرچہ وہ حالت جنگ میں ہوں جلانے کا حکم نہیں دیا۔ دین کے نام پر دغا کرنیوالوں کو کیا خبر جس پاکستان کو روزانہ آگ لگانا وہ کار ثواب سمجھے ہوئے ہیںیہ بیس لاکھ مسلمانوں کی شہادت کے اجر میں قائم ہونے والی مسجد ہے ۔ان لوگوں کے کرتوتوں سے پوری قوم کے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں ۔اور ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے سانحہ پشاور کو دیکھ کر میرا احساس قومی ضمیر سے اور شہداءکے والدین سے یوں تعزیت کر رہا ہے ۔ ہمارے حکمران کچھ کیے بغیر ہی بیان داغ دیتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کیخلاف جنگ جیت لی ہے مگر ضرب عضب کے بعد بھی واہگہ بارڈر لاہور اور آرمی سکول پشاور پرطالبان کے حملوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ دہشتگردی کی جڑیں ہمارے ملک میں کس حد تک مضبوط ہو چکیں ہیں۔ جب بھی کو ئی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے اسکی حرارت سے قومی ضمیر پہ جمی برف تھوڑا سا پگھلتی ہے اور وقت گذر نے کے بعد پھر جم جاتی ہے اصل میں جب سوات میں اسی مولوی فضل اللہ کے ظلم کا نشانہ بننے والے پیر سمیع اللہ چشتی جیسے لوگوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر چوراہوں میں لٹکائی جاتی رہیں جب ہسپتالوں ،گزرگاہوں ،جناز گاہوں اور داتا گنج بخش حضرت بابا فرید اور حضرت عبد اللہ شاہ غازی کی درگاہوں پر دھماکے ہوئے اور اس وقت اس ناسور کا آہنی ہاتھوں سے علاج کر لیا جاتا تو آج پہلے سے 16دسمبر کے ڈسے ہوئے پاکستان کو نائین الیون سے بڑے سانحے کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔مگر نجانے اربابِ اقتدار کی کیا مجبوریاں تھیں۔دہشت گردوں کو پروٹوکول دینا ان کا وطیرہ رہا ہے رہی سہی کسر مذاکرات کی ڈُگڈُگی بجانے والوںنے نکال دی جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو مزید مضبوط اور محفوظ ہونے کا موقع مل گیا ۔پشاور کے بچوں کے خون نے قومی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے ۔اب پاکستان کے وزیر اعظم نے وہ جملہ کہ دیا جو ہم سالہا سال سے کہتے آ رہے تھے یہ طالبان نہیں ظالمان ہیں‘بلا امتیاز انکے خلاف کارروائی ہوگی ،،جنرل راحیل نے بھی ایک نئی انگڑائی لی ہے خدا کرے غم کے سائے میں بلند کیا گیا عَلمِ عزم بلند ہی رہے کہیں حکومت کی بغلوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے کزن حکومت کو یہ عزم ہضم کر جانے کی کو ئی پھکّی نہ دے دیں حکومت سزا یافتہ 55 دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر چکی ہے یہ پوری قوم کی آواز ہے ۔اس سلسلہ میں حکومت کو اقدامات کرنے ہونگے ورنہ پاکستان کا مستقبل کئی مہلک خطرات میں الجھ جائیگا۔ طالبان کی کزن تنظیمات اور شخصیات کا فی الفور محاسبہ کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن