بلاول بھٹو جب کراچی میں ہسپتال پہنچے تو غیر ضروری پروٹوکول اور غیر انسانی سکیورٹی کی وجہ سے ایک غریب آدمی اپنی دس ماہ کی بیٹی کو ایمرجنسی میں نہ لے جا سکا اور وہ تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر مر گئی۔ اور وہاں کسی کو خبر نہ ہوئی۔ وہاں بہت جوش سے نعرے لگ رہے تھے۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے اور ننھی بسمہ مر گئی تھی۔ کسی کو یہ معلوم نہ ہوا اور یہ بھی کسی کو معلوم نہ ہوا کہ بھٹو کس طرح زندہ ہے اور بی بی کس طرح زندہ ہے۔ ہمیں نہ زندگی کا پتہ ہے نہ موت کا؟ ہمیں نہ جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔
ہسپتال میں ایک ٹراما سنٹر کا افتتاح کرنے کے لئے بلاول بھٹو زرداری گئے تھے۔ سندھ کے نام نہاد وزیراعلیٰ سائیں قائم علی شاہ بھی وہاں موجود تھے۔ نثار کھوڑو بھی تھے۔ اپنی اپنی وزارت پکی کرنے کی ساری کوششیں ہیں۔ ابھی ’’صدر‘‘ زرداری کو بلاول کی ضرورت ہے؟ تو جیالے بھی بلاول کی خوشامد کرنے میں آگے آگے ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری کو جب تک نصرت بھٹو کی ضرورت تھی۔ اس کی نیم جاں لاش کی حفاظت کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو سے ان کی شادی نصرت بھٹو نے کرائی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک وہ شوہر دم دار بنے رہے وہ انہیں اپنے ساتھ پاکستان نہ لا تھیں۔ انہیں پاکستان آنا بی بی کے بعد نصیب ہوا۔ اور یہی ان کی خوش نصیبی بن گیا۔
اب بلاول صرف سندھ کی سیاست کر رہا ہے مگر وہاں کراچی میں ایم کیو ایم کے زور شور میں ابھی بات نہیں بن رہی۔ ہسپتال میں ٹراما سنٹر قائم علی شاہ نے اپنی جیب سے تو نہیں بنوایا ہے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے جو حکام کی عیاشیوں پر لگتا ہے اور کبھی کبھار عوام کے بھلے کے لئے تھوڑا بہت خرچ کر دیا جاتا ہے۔ تختی لگ جاتی ہے اور یہ تخت کی مؤنث ہے۔ ایک چیز تختہ بھی ہے اور یہ تینوں اقتدار کی سیڑھیاں ہیں۔ مگر معلوم تب ہوتا ہے کہ جب کوئی ان سیڑھیوں سے گر پڑتا ہے۔ مگر جب کوئی اقتدار میں آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔
ہسپتال میں ٹراما سنٹر بن گیا۔ کتنے عرصے کے بعد بنا۔ پہلے بھی پانچ سال قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ وفاق میں بھی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ تختی لگانا ضروری ہے؟ کیا بلاول کا اس میں کوئی حصہ ہے؟ تختی لگانا ہی ہے تو آرام سے آئیں۔ ہسپتال کے عملے کو اطلاع ہو۔ وہ تختی لگانے کی سیاست کریں اور چلے جائیں۔
ہسپتال میں کسی طرح سے پروٹوکول کی کیا ضرورت ہے اور سکیورٹی کا تکلف کیوں ہے۔ کیا یہ لوگ بھٹو کو بچا سکے۔ ان کے جنازے میں چند لوگ تھے۔ نثار کھوڑو کہاں تھے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف بلاول عزیز ہے۔ خدا کی قسم وہ بچی اپنے ماں باپ کو بلاول سے زیادہ عزیز تھی۔ مجھے بھی وہی عزیز تھی۔ بچے جنت کے باشندے ہیں اور وطن عزیز کی زمین عام لوگوں اور غریبوں کے لئے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے دوزخ بنا دی ہے۔
کسی امیر کبیر وزیر شذیر کو زکام بھی ہو جائے تو وہ انگلستان اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی سیر سپاٹے اور عیاشی کے لئے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
نثار کھوڑو کے لئے میرے دل میں نرم گوشہ ہے مگر انہوں نے جس سیاسی ڈھٹائی اور بے رازی سے بات کی ہے۔ بہت برا لگا ہے اگر اس طرح ان کی اپنی بیٹی مر جاتی تو پھر بھی ان کے دل میں ایسی ہی لاپروائی ہوتی۔ قائم علی شاہ تو ٹراما سنٹر کے لئے تعریفوں کے پل باندھتے رہے مگر انہوں نے کراچی کے بے ہنگھم ٹریفک کے لئے کوئی پل نہ بنایا۔ لاہور میں جو ٹریفک کا حال ہے بلکہ بے حالی ہے۔ ایک سال کے بعد لوگ کیا کریں گے۔ حکام کے لئے سڑکیں خالی کرائی جاتی ہیں۔ عوام کے لئے ٹریفک مزید پھنس جاتی ہے۔ ایسے میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کی افادیت ظاہر ہوتی ہے۔ سائیں شاہ صاحب نے تو کوئی پل نہیں بنوایا نہ زیر زمین کسی ریل گاڑی کا منصوبہ بنایا ہے تو ان لوگوں سے پوچھیں جو اپنی گاڑیوں پر ایک کلو میٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔
پروٹوکول میں بڑی شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ‘ انگلستان میں ملکہ برطانیہ کی گاڑی کے ساتھ صرف ایک گاڑی چلتی ہے وہ ہر ٹریفک اشارے پر رکتی ہے کوئی ٹریفک نہیں روکی جاتی۔ پاکستان میں کیسی جمہوریت ہے۔ جن لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ ان کو نزدیک نہیں آنے دیتے نہ کوئی ان کے قریب جا سکتا ہے۔ جہاں وہ ہوتے ہیں وہاں ٹیکس دینے والے داخل نہیں ہو سکتے۔ ٹیکس کھانے والے داخل ہو سکتے ہیں۔ ہسپتال میں مریض نہیں جا سکتے مگر جنہوں نے پوری قوم کو مریض بنا دیا ہے وہ جا سکتے ہیں۔ ننھی بچی کی سانس رک گئی مگر نعرے لگتے رہے۔
مجھے لگتا ہے کہ کسی دن لوگ ٹریفک روکنے والوں کو لتاڑتے ہوئے گزر جائیں گے۔ پھر مریض ہجوم میں نہیں مریں گے۔ عورتیں رکشوں میں بچے جنم نہیں دیں گی حکام اور عوام میں غیر ضروری فرق مٹ جائے گا۔ فاصلے کسی مستحکم فیصلے کے بعد ہی کم ہوں گے؟ ننھی بچی بسمہ مر گئی ہے تو یہ ایک قتل ہے‘ ایف آئی آر کس کے خلاف درج ہوئی۔ میرے خیال میں یہ ایف آئی آر بلاول بھٹو زرداری‘ قائم علی شاہ اور نثار کھوڑو کے خلاف درج ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے سب سے اچھی بات شہلا رضا نے کی تھی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے موقف کو بھی پیش کیا اور لوگوں کی نمائندگی بھی کی ہے۔ بلاول بچی کے گھر پہنچے اور یہ عمل بغیر پروٹوکول کے ہوا۔ بلاول یہ طریقہ مستقل طور پر اپنائے تو کمال ہو جائے۔ حکمرانوں کو بھی احتیاط کرنا چاہئے۔