پاکستان کے نیشلسٹ رہنما زندگی کے اس موڑ پر سیاسی منظر سے ہٹائے جاتے رہے جب ان کے ذہن و قلب میں وطن پرستی کا جذبہ پوری طرح موجزن ہوچکا ہوتا اور وہ پاکستان کو شاہرائے ترقی پر گامزن کرنے کے لیے کامل سیاسی بلوغت کے ساتھ منصوبہ بندی کرچکے ہوتے۔ لیاقت علی خان کو تاریخ کے اس موڑ پر شہید کیا گیا جب پاکستان ایک اہم سنگ موڑ پر پہنچ چکا تھا اور سیاسی منظرنامے پر ان کا کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ لیاقت علی خان کے المناک قتل کے بعد ان کے قاتلوں اور ماسٹر مائینڈ تک پہنچنے کے لیے حکومتی اور سرکاری سطح پر کارروائیاں ہوتی رہیں جو محض دکھاوے کے لیے تھیں۔ عوام کی اجتماعی دانش کا فیصلہ یہ تھا کہ لیاقت علی خان کا قاتل وہ ٹولہ تھا جس کو سیاسی خلاء سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی سیاست کی ریشہ دوانیوں اور چالوں کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے تھے وہ پاکستان کو دنیا کی عظیم دفاعی، سیاسی اور معاشی قوت بنانا چاہتے تھے۔ عالم اسلام اور ایشیائی ممالک کے درمیان اتحاد اور اشتراک عمل کے لیے شعوری کوششیں کررہے تھے۔ پاکستان قدم بہ قدم ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور عالم اسلام اور ایشیائی ممالک کا مرکز بننے جارہا تھا۔ امریکہ کو جنوبی ایشیاء میں اپنے قومی مفادات خطرے میں نظر آنے لگے۔ اس نے پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ساتھ ساز باز کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا۔ بھٹو کی شہادت کا سب سے زیادہ فائدہ آمر جنرل ضیاء الحق کو پہنچا جو گیارہ سال تک اقتدار پر مسلط رہا اور امریکی مفادات کو آگے بڑھاتا رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی خداداد صلاحیتوں اور انتھک محنت سے پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں انہیں اسٹیبلشمنٹ کے سابق اہم کردار کے مطابق ’’اقتدار کا جھولا‘‘ دینے کے بعد منصب سے ہٹا دیا گیا۔ وہ اپنے عظیم والد کے گہرے سیاسی اثرات اور شبانہ روز محنت سے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئیں مگر انہیں اپنی ٹرم پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ وہ ہمت ہارنے والی خاتون نہیں تھیں اپنے باپ کی طرح یکسو ہوکر ہرروز اٹھارہ گھنٹے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتیں۔ 2008ء تک وہ تجربات اور مشاہدات سے سیکھتے ہوئے سیاسی طور پر پوری طرح سیاسی بلوغت کے درجے پر پہنچ چکی تھیں۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے ان کا عزم توانا اور مستحکم ہوچکا تھا۔ محترمہ ایک بار پھر عوام کی اُمیدوں کا محور و مرکز بن چکی تھیں۔ آمر جرنیل پرویز مشرف اقتدار پرست اور جاہ پرست تھا اور بیس سال اقتدار پر قابض رہنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو سے خوف زدہ تھا اس کی خواہش تھی کہ محترمہ انتخابات کے بعد پاکستان واپس آئیںکیونکہ وہ اپنی کنگ پارٹی مسلم لیگ(ق) کو فتح یاب کرانا چاہتا تھا تاکہ اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل نہ پائے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب میں یہ انکشاف کردیا تھا کہ امریکہ نے ان کو پاکستان واپسی پر سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی تھی مگر وہ اپنے وعدے سے مکرگیا اور جنرل مشرف سے اپنی نئی شرائط پر دوبارہ سازباز کرلی اور جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم نہ کی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سب سے زیادہ فائدہ آصف علی زرداری کو ہوا جس نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کرارکھی تھی کہ اگر محترمہ کو شہید کردیا گیا تو وہ پارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے اور اقتدار میں آنے کے بعد ’’عالمی طاقتوں کے وفادار‘‘رہیں گے۔ آصف علی زرداری پانچ سال اقتدار پر قابض رہے مگر محترمہ کے قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنا ان کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں تھا۔ بے نظیر بھٹو اگر زندہ رہتیں تو آصف علی زرداری پارٹی کے چیئرمین اور صدر پاکستان نہیں بن سکتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اگر شہید نہ ہوتیں تو پاکستان اور پی پی پی دونوں بہت بہتر حالت میں ہوتے۔ جب نیشلسٹ لیڈروں کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے تو ملک اور ریاستیں کمزور ہوجاتی ہیںاور پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا خلاء آج تک پورا نہیں کیا جاسکا۔ جنرل ضیاء الحق گیارہ سال کے اقتدار کے بعد بھی پی پی پی کو ختم نہ کرسکا۔ آصف علی زرداری نے یہ کام پانچ سال میں کردکھایا۔ پی پی پی ایک قومی جماعت تھی جو بے نظیر بھٹو کے بعد سکڑ کر ایک صوبے کی جماعت بن کررہ گئی ہے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جب لیڈر اور حکمران مال و دولت کے نشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو سیاسی جماعتیں اور ریاستیں عدم استحکام کا شکار ہوجایا کرتی ہیں۔ آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت اور ہنمائی کی بجائے سیاسی اور حکومتی طاقت کو ذاتی اثاثوں اور جاگیروں میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔ بے نظیر بھٹو کرشماتی اور مدبر لیڈر تھیں وہ زندگی کے آخری سانس تک متحرک اور فعال رہیں۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں سے رابطہ استوار رکھا وہ ہر روز قومی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتیں اور پارٹی پالیسیوں کا دفاع کرتیں۔ انہوں نے پارٹی کا نظریاتی تشخص بحال رکھا اور بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو نظر انداز نہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی لاوارث ہوچکی ہے اور مسلسل قیادت کے بحران سے گزررہی ہے۔آج جبکہ پاکستان سنگین چیلنجوں کا شکار ہے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کرشماتی اور وژنری لیڈرشپ موجود نہیں ہے۔ پی پی پی کی نظریاتی شناخت ختم ہوچکی ہے۔ جیالوں کی توقع ہی اُٹھ چکی ہے۔ آصف علی زرداری لوٹ مار جاری رکھنے اور لوٹ کا مال بچانے کے لیے وفاق اور فوج کے خلاف وہ زبان استعمال کررہے ہیں جو بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جان بچانے کے لیے بھی استعمال نہیں کی تھی۔وہ عوام کے غم اور خوشی میں شریک نہیں ہوتے اور اکثر اوقات اہم ترین موقعوں پر بھی عوام سے دور ہی رہتے ہیں۔ان کے نزدیک ان کی اپنی زندگی عوام اور پاکستان سے بھی زیادہ قیمتی اور عزیز ہے۔جو لیڈر عوام کے درمیان نہ رہتا ہو اسے لیڈر کیسے تسلیم کرلیا جائے۔ آصف علی زرداری آئین کے تحفظ کے دعوے کرنے کی بجائے یہ تو بتائیں کہ کیا وہ سندھ کو آئینی تقاضوں کے مطابق چلارہے ہیں۔ وہ خود کس آئین اور جمہوری اصول کے تحت پارٹی کے چیئرمین کے منصب پر قابض ہیں۔ وہ اگر پارٹی کارکنوں کو لیڈر منتخب کرنے کا موقع دیں تو اُن کی ضمانت ضبط ہوجائے۔ پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ تھے مگر انہوں نے ذاتی مصلحتوں کی خاطر ان کی قیادت کو تسلیم کرلیا حالانکہ مخدوم امین فہیم قیادت کے پوری طرح اہل تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزاج شناس اور قابل اعتماد معاونین ڈاکٹر صفدر عباسی اور بیگم ناہید خان نے پارٹی کو بھٹو اور بے نظیر کے نظریے پر استوار رکھنے کیلئے آصف علی زرداری کو چیلنج کیا کیونکہ انہوں نے اوّل روز سے ہی پارٹی کی نظریاتی اساس سے انحراف شروع کردیا تھا۔۔ کارکنوں کے علاوہ کسی لیڈر نے ناہید خان کا ساتھ نہ دیا۔ دونوں سیاسی لیڈروں کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی کہ پی پی پی کی نظریاتی شناخت ختم کی گئی تو پارٹی برباد ہوجائیگی۔ ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان کی فکری اور نظریاتی جدوجہد جاری ہے۔ انکو یقین ہے کہ عدالت ان کو پی پی پی کا نام آلاٹ کردیگی۔ پی پی پی جیالوں کا ورثہ ہے یہ ورثہ موقع پرستوں اور مفاد پرستوں کی بجائے جیالوں کے پاس ہی رہنا چاہیئے۔ پی پی پی کے کارکن متحدہ جدوجہد سے ہی بھٹو کے سیاسی اور نظریاتی ورثے کو محفوظ بناسکتے ہیں۔