یہ اتفاق سمجھ لیں یا ہماری نا اہلی کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دو سابق وزرائے اعظم خان لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعات رونما ہوئے اور دونوں کے قتل کا معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔۔۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ جب خان لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی اس وقت ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی واضع ثبوت موجود ہے۔۔۔ لیکن بے نظیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔۔۔ ان پر حملے کی کئی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بی بی کس طرح قتل ہوئیں،،، اور دھماکہ کرنے والوں اور گولیاں چلانے والوں کی پوزیشن کیا تھی۔ پھر بھی آج تک ہمارے سیاستدان یہ پتا نہیں چلا سکے کہ اس عظیم رہنما کے قتل کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو میری آئیڈیل شخصیت تھیں، جب وہ زندہ تھیں تو سیاسی بصیرت کے حوالے سے ان کا کوئی نعمل البدل نہیں تھا۔۔۔ اُن کی شہادت ایک عظیم قومی سانحہ ہے جسے 8 سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج تک قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔ بقول شاعر
شہیدوطن محترمہ بے نظیر بھٹو تیری عظمت کو سلام
وطن پاک کی خاطر تیری جہد مسلسل کو سلام
شہید بھٹو کی طرح لڑتی رہی غریب عوام کے حق کی خاطر
باپ بیٹی دونوں کی بے مثال شہادت کو سلام
ذرا تصور کیجئے اس بیٹی کی حالت، جس کا باپ لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہا ہو۔ وہ بچی جس کا جنم ایک شہزادی کی طرح ہوا اور پھر ہوش سنبھالتے ہی اُسے قدم قدم پر موت کے ہولناک اندھیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ سچی بات ہے محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی جانشین ہونے کا حق ادا کردیا ۔ اس نے جمہوریت کا پرچم وہیں سے اُٹھایا جہاں اس کے والد کو پھانسی ہونے کے نتیجے میں گرا تھا۔ ذرا تصور کریں وہ وقت جب بڑے بڑے سیاسی لیڈر خاموش تھے، بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ساتھ اِدھر سے اُدھر بھاگ رہی تھیں۔ حالات ہوا میں تنکے کی طرح اُسے اُڑا کر اِدھر سے اُدھر لے جارہے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اُسے باپ کے ساتھ آخری ملاقات کرنا تھی۔ آخری ملاقات کے بعد ماں، بیٹی کو نظربند کردیا گیا۔ پورے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ بیٹی کو باپ کی میت کا آخری دیدار کرنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ یہ وہ صدمہ تھا۔۔۔ جس کے نتیجے میں اس نے تنکے کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے آمریت سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ والدہ کے ساتھ پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ 88ء میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا مگر انتخابات سے قبل ہی ضیاء الحق کا طیارہ دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ ان کے ساتھ بہت سے قومی افسر بھی شہید ہوگئے۔ یہ بھی قومی المیہ اور سانحہ تھا۔۔۔ اور اس کے بعد حالیہ تاریخ میں دوسرا سانحہ محترمہ کے قتل کی صورت میں رونما ہوا۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بی بی کو قتل کس نے کیا؟ کس نے کروایا؟ کیوں کیا یا کروایا؟ یہ تو دور کی بات ہے آج تک اس بات کا ہی پتا نہیں چلایا جا سکا کہ بے نظیر کی شہادت گولی لگنے سے ہوئی تھی یا گاڑی کا سن روف لیور لگنے سے،،، اتنی بڑی لیڈر کے پوسٹ مارٹم کروانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی،،، جیسے شروع دن سے ہی ’’کوئی‘‘ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس قتل کی کوئی تحقیق ہی نہ ہو۔۔۔ ان آٹھ سالوں میں بڑے بڑے ساہو کار آئے جنہوں نے محترمہ کے قتل کے محرکات کے حوالے سے ایسی ایسی بکواسیات کیں کہ دل چاہتا ہے انہیں چوراہے پر لا کر اُلٹا لٹکا دیا جائے اور پھر اگلوایا جائے کہ اس عظیم لیڈر کو کس طرح، کس نے اور کیوں بریت کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
مختصر یہ کہ محترمہ کی شہادت کو بھی سیاسی بنا دیا گیا اور ان کے حواریوں نے اسے مختلف مواقعوں پر الیکشن اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا، ان 8 سالوں میں تین حکومتیں بدلیں اور سب سے زیادہ 5 سال خود بی بی کی جماعت پیپلز پارٹی نے پورے کیے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری صدر پاکستان کی کرسی پر براجمان رہے،،، مگر افسوس! محترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا تو دور کی بات کوئی یہ معلوم نہیں کر سکا کہ محترمہ کی شہادت کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟۔۔۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ محترمہ کی پہلی برسی پر اُن کے شوہر آصف علی زرداری کا دعویٰ تھا کہ اُنہیں قاتلوں کے بارے میں معلوم ہے۔۔۔ مگر۔۔۔!!! نہ جانے کونسی مجبوری آڑے آگئی تھی کہ وہ بھی صدر مملکت بن جانے کے بعد اس بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔۔
پھر قارئین کو یاد ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری سالوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کا دائرہ سابق صدر پرویز مشرف تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک سوالنامہ تیار کیا گیا، اس سوالنامے میں سابق صدر سے کئی اہم سوالات پوچھے گئے اور یہ بھی پوچھا گیا کہ کِس اعلیٰ شخصیت کی کال پر بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا گیا۔
ابھی تک اس کیس کے حوالے سے تین باقاعدہ تحقیقات منظر عام پر آچکی ہیں تینوں تحقیقاتی رپورٹیں حقائق کو اطمینان بخش طریقے سے عوام کے سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں۔ پہلی تحقیق خود پرویز مشرف حکومت نے کی تھی جس میں بتایا گیا کہ بیت اللہ محسود نے انہیں قتل کیا ہے۔ دوسری تحقیق اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین سے کرائی گئی۔۔۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق محترمہ کو انتہاپسندوں نے قتل کیا تھا، کیونکہ وہ طالبان کے سلسلے میں امریکا کے مؤقف کی کھل کر حمایت کر رہی تھیں۔ تیسری رپورٹ اقوام متحدہ کے تین رکنی کمیشن نے تیار کی تھی جس میں پاکستان کے بعض حساس اداروں کی ناقص کارکردگی پر اْنگلیاں اْٹھائی گئیں اور مبینہ طور پر ان پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی غفلت اور مکمل سکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی وہ بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس رپورٹ میں ان عناصر کا ذکر تک نہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ تین رکنی کمیشن کی رپورٹ نے کئی نئے سوالات جنم دیئے۔ مگر کچھ سوالات ایسے ہیں جو تا قیامت ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔۔۔ پہلا یہ کہ خود کش دھماکہ کی جگہ جلسہ گاہ سے باہر تھی اور وہاں بے نظیر کو رُکنا بھی نہیں تھا۔ گاڑی رُکی کیسے؟ کسی نے اشارہ کیا یا جیالوں کی بھیڑ دیکھ کر خود ہی گاڑی رکوانے پر مجبور ہوئیں یا نتیجتاً گولی چل گئی پھر فوراً دھماکہ بھی ہو گیا؟ دوسرا یہ کہ حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا وہ واقعی چانس لے رہے تھے کہ بے نظیر سن روف سے نکلیں اور کارروائی کی جائے؟ اگر بے نظیر بھٹو سن روف سے نہ نکلتیں پھر کیا وہ حملے کا ارادہ ترک کر دیتے؟ تیسرا یہ کہ بے نظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست کیوں کی گئی؟ حکومت کی جانب سے فیصلہ کس نے کیا کہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے؟ جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہی نہیں کیا گیا تو پھر موت کے اسباب کیسے تلاش کئے جائیں گے؟ پوسٹ مارٹم حادثاتی موت کے اسباب کا تعین کرنے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیا پوسٹ مارٹم نہ کیا جانا کسی عالمگیر سازش کا اشارہ تو نہیں؟ چوتھا یہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی غیر طبعی موت کی صورت میں جن افراد کو اپنی زندگی میں ملوث قرار دے دیا تھا ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وہ تمام لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو بھی ان افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ یہ سوالات جواب طلب ہیں اور اگر کوئی آزادانہ تفتیش ہو تو بہت سے چہرے عیاں ہو سکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ ! اس نوع کے معاملات میں ہمارا گزشتہ ریکارڈ کسی لحاظ سے بھی قابل رشک نہیں ہے۔ جب تک ان بنیادی سوالات کا جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک یہ گتھی سلجھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ مکرر عرض ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کے قتل کے معاملے کو مزید الجھنوں کا شکار بنانا اور اسے سازشی تھیوریز کی بھینٹ چڑھانا درست نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہیں اور ایک دوسرے کو محترمہ کا قاتل ٹھہرا رہے ہیں۔ ہمارا ایسا رویہ درست نہیں کیوں کہ اگر محترمہ کے خون کے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو جو اُن کے ساتھ ہوا آنے والے دنوں میں کسی کے ساتھ ہو سکتا ہے اس لیے ۔۔۔ محتاط رہیں!!!