مودی کی ’’اچانک‘‘ جاتی امرا آمد‘ نواز شریف سے ملاقات‘ جامع مذاکرات پر اتفاق اور مزید برف پگھلنے کا عندیہ
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور سرد مہری کی جو دبیز تہہ بھارت کی مودی سرکار نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں جمائی تھی اسے پاٹنے اور برف پگھلانے کے لئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس ماہ کے آغاز میں پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے اچانک اور راز درانہ انداز میں ملاقات کی صورت میںکی گئی پیش رفت اب انہیں پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی اقامت گاہ جاتی عمرا تک لے آئی ہے جس پر دنیا بھر میں پاکستان بھارت سازگار تعلقات کے خواہاں حلقوں میں خوشگوار حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج کی گہرائی اب کم ہو جائے گی اور ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن یہ دونوں ممالک خیرسگالی کے تعلقات سے دوستی اور اقتصادی روابط کے استحکام تک آ پہنچیں گے۔ خیر سگالی کے لئے یہ مثبت پیش رفت اس بھارتی وزیراعظم کی جانب سے کی گئی ہے جو پاکستان اور مسلم دشمنی کی شہرت رکھتے ہیں اور اپنی انتہا پسندانہ سوچ اور پالیسیوں کے باعث بھارت کو سیکولر سٹیٹ سے عملاً ہندو ریاست میں تبدیل کر چکے ہیں جبکہ یہی نریندر مودی ایک ہفتہ پہلے تک ہندو انتہا پسندی کے فروغ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا خود اعلان کر چکے تھے۔ گزشتہ روز وہ اپنے دورہ ماسکو سے واپسی پر کابل سے سیدھے لاہور آپہنچے جہاں وزیراعظم نواز شریف ان کے استقبال کے لئے موجود تھے چنانچہ وہ انہیں لاہور ائرپورٹ سے سیدھے جاتی امرا (رائے ونڈ) لے آئے۔ مودی نے انتہائی خوشگوار ماحول میں جاتی امرا میں وزیراعظم نواز شریف کی 66ویں سالگرہ اور ان کی نواسی مہر النسا کی رسم حنا کی تقریب میں شرکت کی۔ وہاں موجود شریف فیملی کے ارکان اور دیگر لوگوں میں گھل مل گئے اور پاکستان کے خلاف چند گھنٹے قبل کابل میں انگارے برساتی اپنی زبان میں رس گھول دیا۔ اس طرح وہ شیریں سخنی کے باعث توجہ کا مرکز بنے رہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنائیت بھرے لہجے میں انہیں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آخر آپ آہی گئے جس پر مودی نے میٹھے لہجے میں جواب دیا کہ ہاں میں آگیا ہوں۔ ایسا ہی جذباتی ماحول اس وقت بھی نظر آیا جب میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ نے نریندر مودی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ ’’مل کر رہو گے تو خوش رہو گے‘ جس کے جواب میں نریندر مودی نے ’’نمستے کہنے کے انداز میں ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’ماتا جی ہم اکٹھے ہی ہیں۔‘‘
نریندر مودی کے لاہور اور جاتی امرا کے اس دورے کو اگرچہ اچانک دورے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کے بقول نریندر مودی نے گزشتہ روز (جمعتہ المبارک) کی صبح ساڑھے گیارہ بجے اپنے ہم منصب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو فون کرکے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر وزیراعظم نواز شریف نے انہیں لاہور میں اپنی موجودگی کی اطلاع دی اور انہیں اپنی اقامت گاہ پر آنے کی دعوت دی اس طرح نریندر مودی کی پاکستان آمد اور میاں نواز شریف سے ان کی ملاقات اچانک ہوئی ہے جس کے باعث اس ملاقات میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز‘ طارق فاطمی اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ اسلام آباد میں موجود ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے۔ تاہم مودی کا اچانک لاہور آنا اس لئے بھی قرین قیاس نہیں کہ انہیں اور ان کے ساتھ پاکستان آنے والے ان کے وفد کے ارکان کو پاکستان کا ویزہ جاری ہونے میں تو کچھ وقت لگا ہو گا کیونکہ اب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی نظروں سے خود کو بچا کر کوئی غیر ملکی باشندہ بغیر ویزہ لئے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت دنیا کو ’’سرپرائز‘‘ دینے کے لئے مودی کے اس غیر رسمی دورہ پاکستان پر ’’اچانک دورے‘‘ کا لیبل لگایا گیا نظر آتا ہے اور درحقیقت یہ دورہ پیرس میں مودی کی میاں نواز شریف سے ’’اچانک‘‘ ملاقات کے وقت پر طے ہو گیا تھا جس میں یقیناً میاں نواز شریف نے مودی کو اپنی نواسی کی شادی کی تقریبات میں شمولیت کی دعوت دی ہو گی جبکہ مودی کی لاہور آمد کے لئے 25 دسمبر کا دن اس لئے طے ہوا ہو گا کہ یہ میاں نواز شریف کی سالگرہ کا بھی دن ہے۔ اس طرح مودی کے اس دورے سے میاں نواز شریف کے لئے تہری خوشی کا اہتمام کیا گیا جنہیں اپنی سالگرہ اور اپنی نواسی کی رسم حنا میں مودی کی شرکت کا تحفہ ملا جبکہ مودی کی لاہور اور جاتی امرا آمد سے خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو گی تو اس کا کریڈٹ بھی میاں نواز شریف کی حکومت کو جائے گا۔ وہ اپنے گزشتہ دور حکومت کے حوالے سے بھی پاکستان بھارت سازگار ماحول کی راہ ہموار ہونے کا کریڈٹ لیتے رہتے ہیں جب ان کے بقول اس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی دوستی بس پر بیٹھ کر لاہور میں مینار پاکستان تک آگئے تھے مگر پھر ان کے ساتھ 12 اکتوبر ہو گیا اور سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
اگر ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی انتہا کو پہنچے ہوئے اس خطے کے دونوں ایٹمی ممالک برابری کی بنیاد پر اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ امن کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو اس خطے کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ امن کی یہ راہ درحقیقت خوشحالی اور اقتصادی استحکام کی راہ ہو گی جس کی اس وقت دونوں ممالک کے عوام کو سخت ضرورت ہے جبکہ اس سے پاکستان بھارت کشیدگی کے حوالے سے اقوام عالم میں پیدا ہونے والا اضطراب بھی ختم ہو جائے گا جو ان دونوں ممالک کی کشیدگی کے عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشہ کے باعث پیدا ہوا ہے۔ تاہم پاکستان کے ساتھ اب تک کے بھارتی رویے‘ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی کے تسلسل‘ انتہا پسندانہ ہندو سوچ اور جنگی جنون بڑھانے کی مودی سرکار کی پالیسی کو پیش نظر رکھ کر ہمیں پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعلقات کی بحالی کے لئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت پر انتہائی محتاط رہنا ہو گا اور اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر دوستی کا جوابی ہاتھ بڑھانا چاہئے کہ اس خوشگوار ماحول میں آیا مودی سرکار کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس دیرینہ مسئلہ کے یو این قراردادوں کی روشنی میں حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہے۔ بادی النظر میں تو مودی سرکار کی جانب سے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ کیونکہ پیرس میں نواز‘ مودی ملاقات‘ بنکاک میں پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات اور پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی اسلام آباد میں خوش بیانی اور پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات کی خواہش کے اظہار کے باوجود مسئلہ کشمیر پر بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں نظر آرہا ہے۔ اور سشما سوراج نے اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے بھارتی لوک سبھا میں اپنے پالیسی بیان کے اگلے ہی روز یہ بیان دے کر بھارتی ہٹ دھرمی کا اعادہ کر دیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات مقبوضہ کشمیر پر نہیں بلکہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر ہوں گے جس پر ان کے بقول پاکستان نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ان کے اس بیان کے اگلے ہی روز خود نریندر مودی نے ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار ہونے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا باوجود اس کے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اس جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندانہ سوچ کو برقرار رکھ کر مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کے لئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے جس کے لئے خود نریندر مودی سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں تو بادی النظر میں مودی سرکار کی یہ پالیسی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ والی ہی ہے چنانچہ اسی تناظر میں خارجہ امور کے ماہرین اور مبصرین مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور اور جاتی امرا آمد کو عالمی برادری کو بے وقوف بنانے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
مودی سرکار اپنی ہندو انتہا پسندانہ پالیسیوں اور بھارتی اقلیتوں کو جبری ہندو بنانے والے اقدامات کے باعث اس وقت یقیناً عالمی دباؤ میں ہے کیونکہ عالمی قیادتوں کو مودی سرکار کی ان پالیسیوں سے علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق نظر آرہے ہیں جس کے پیش نظر اقوام متحدہ اور امریکہ و یورپ کی جانب سے مودی سرکار پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دو طرفہ مسائل حل کرنے کے لئے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ اس دباؤ کے پیش نظر مودی اپنی ہندو انتہا پسندی کے باوجود پیرس میں میاں نواز شریف کے پاس آگئے اور پھر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے برف بگھلنا شروع ہو گئی تاہم اس بھارتی پیش رفت کو ماضی کے تلخ تجربات کے باعث عالمی دباؤ کم کرنے کے لئے بھارتی چال سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس بھارتی پیش رفت پر بلاسوچے سمجھے اس کے لئے ریشہ خطمی والی پالیسی سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے کیونکہ ابھی آگے اور بھی بہت سے مراحل آنے ہیں۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز آئندہ ماہ جنوری میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ سال سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے پھر پاکستان آنا ہے اس لئے بھارتی رویے‘ لہجے اور کشمیر ایشو پر اس کے موقف کا حکومت اور دفتر خارجہ کو مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ یہ محض دو خاندانوں کا نہیں‘ ایک دوسرے سے متحارب دو ممالک کے تعلقات کا سنجیدہ معاملہ ہے جس میں کسی خوش فہمی کی بنیاد پر پاکستان کے موقف پر کسی کمزوری کا عنصر شامل نہیں ہونے دینا چاہئے۔ مودی نے جاتی امرا میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں امن عمل جاری رکھنے اور جامع مذاکرات کا عندیہ دیا ہے تو کیا وہ بھارت جا کر اس پر کاربند بھی رہیں گے جہاں انہیں اپوزیشن کانگرس کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔