میں جب گھر سے نکلی تو 12 ربیع الاوّل کا مسکراتا مہکتا چہرہ رات کی چادر کو ریزہ ریزہ کرکے طلوع ہورہا تھا۔ مؤذن نے فجر کی آخری اذان دی تھی، نمازی صفیں باندھ رہے تھے اور مساجد سے درود و صلوٰۃ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ صبح کا چہرہ کتنا صبیح تھا، شبنم کے قطرے اس کا منہ دھلا رہے تھے… سڑکیں ابھی جاگی نہیں تھیں اور شہر کے سارے گھر محوخواب تھے۔ میں سڑکوں اور گھروں کا جائزہ لیتی موٹروے پر پہنچ گئی۔ موٹروے اگرچہ ساری رات پامال ہوتی ہے مگر صبح دم اجلی اجلی اور نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ گھروں کے اندر لوگ اطمینان سے سو رہے تھے اور سارے گھر یوں کھڑے تھے جیسے جانثار ماں نے اپنے بچوں کو اپنی گرم اور نرم آغوش میں سمو رکھا ہو…
اے میرے شہر کے لوگو! چین سے سونے والو، خواب خوشگوار کے مزے لوٹنے والو! آرام سے سوتے رہو، یہ پاکستان ہے، یہ ہمارا عافیت کدہ ہے، اس پر ربیع الاوّل نے سایہ کررکھا ہے۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد کا یہ ثمر ہے۔ دیکھو مسجدوں کے مینار سر اٹھائے کھڑے ہیں اور 12 ربیع الاوّل کا دن دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔ کبھی کبھی تم بھی اسی طرح نور کے تڑکے اٹھنا اور سارے شہر کا چکر لگانا۔ پھر کسی بلندی پر کھڑے ہوکر ان پرسکون گپ چپ گھروں کا جائزہ لینا۔ کتنا آنند نکل رہا ہے ان گھروں کے اندر سے اور کتنی امیدیں اگ رہی ہیں ان ہرے بھرے میدانوں کے اندر…
اور اٹھو: یہ دن خداوند عالم کا شکر ادا کرنے کا دن ہے جس نے ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفیٰؐ کی امت میں سے پیدا کیا اور جس نے ہمیں پاکستان کی صورت میں ایک انعام عطا کیا اور اس انعام نے ہمیں دنیا کے ملکوں میں سر بلند کیا اور یہاں ہمیں خوشنما خوبصورت گھر نصیب ہوئے، گھروں کے اندر راحت اور رزق نصیب ہوا… کبھی بروقت جاگو: تو ان سڑکوں پر ضرور نکل کر دیکھنا کہ وطن کی جاذبیت کیا ہے، اہمیت کیا ہے۔ جب سناٹا گھمبیر ہوجاتا ہے تو یہ سڑکیں بولتی ہیں، یہ گھر باتیں کرتے ہیں، یہ تمہیں تمہارے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی آوازیں نہیں سنو گے تو اور بھی بے حس ہوجائو گے۔
میری موٹر فراٹے بھرتی موٹروے پر جارہی تھی۔ میں بادلوں کے ساتھ سورج کی کشمکش دیکھ رہی تھی… مظاہر قدرت کی زبان سمجھنے کی کوشش کررہی تھی اور مہکتا ہوا دن میرے آنچل میں خوشبو بھر رہا تھا، مجھے جہلم جانا تھا۔
میاں عرفان بابا نے ایک محفل عشق و طریقت مسجد ابراہیمی میں منعقد کی تھی… اس روز سارے شہروں کے چہرے روشن تھے۔ جس جس شہر سے ہم گزرے عشاقانِ حبیب کبریا نے راستے اور روشیں سجا رکھی تھیں۔ رنگ برنگی جھنڈیاں گلی کوچوں میں لہرا رہی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے سفید چونے کی پٹی سے آراستہ تھے۔ دیگیں پک رہی تھی۔ شرینیاں تقسیم ہورہی تھیں۔ چھوٹے بڑے جلوس نعرئہ رسالت لگاتے ہوئے بہت پرامن طریقے سے گزر رہے تھے۔ ثناء خوانان حبیب مائیک پر بلند آواز میں نعتیں پڑھتے گزر رہے تھے۔کہیں کہیں پولیس بھی موجود تھی مگر کوئی بے سکونی، بدنظمی یا گڑبڑ کہیں نظر نہیں آئی۔ بھلا ہو میرے وطن کے فوجیوںکا… ماحول میں جان آگئی… اچھا لگ رہا تھا… جشن میلاد النبیؐ منانا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے فضائیں بھی ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں، یہ کون لوگ ہیں اور کیا کررہے ہیں… یہ اس زمین کے لوگ ہیں جس طرف سے حبیب خدا کو محبت کی مہک آیا کرتی تھی… ہر زبان کہہ رہی ہے:
’’مبارک ڈیو میکو سیو محمد میڈے گھر آیا‘‘
ترجمہ:- (سکھیو! مجھے مبارک دو، محمدؐ میرے گھر تشریف لائے ہیں)
جہلم کے وسط میں روشن روشن دیدہ زیب مسجد ابراہیم میں بابا جی کی محفل سجی تھی، پھول اپنے آپ پر اترا رہے تھے اور مقرر حضرات گل افشانی گفتار سے محفل کو گرما رہے تھے۔ دور دراز سے شوق کے مارے اپنے دل سے ہارے اہل ذوق اور جانثار نہایت عقیدت سے بیٹھے سن رہے تھے۔ سننا بھی تو عبادت ہے اور پھر ذکر ہو اللہ کا اور اللہ کے رسول کا، فرشتے ٹھہر کر سنتے ہیں، ہوائیں رک کر سنتی ہیں، ستارے جھک کر سنتے ہیں، فرش نشین سر دھنک کر سنتے ہیں…
عالموں نے کب عشق کی بات سمجھی ہے اور کب قلبی واردات کو سمجھایا ہے… اسی لئے تو بابا بلھے شاہؒ نے کہا:
علموں بس کریں اویار
اور حضرت سلطان باہوؒ نے کہا ہے:
حافظ پڑھ پڑھ کرن تکبر
ملاں کرن وڈیائی ہو
ساون ماہ دے بدلاں وانگو
پھرن کتاباں چائی ہو!
مگر عرفان بابا نہ تو حافظ ہیں نہ ملاں… نہ وہ اپنی ڈگریوں کو ترازو میں تول کے بات کرتے ہیں، وہ تو بس اتنا کہتے ہیں عشق کا قرینہ سیکھو، پھر عشق کی بات کرنا۔ محبت کا سلیقہ سیکھو پھر محبت کی تشریح کرنا، اپنے آقا کی سیرت کو سمجھو پھر شریعت کی بات کرو، رزقِ حلال کی لذت اپنے اندر اتارو پھر کلمہ طیبہ کی تفسیر بیان کرو۔
تم حیا کا مطلب سمجھتے ہو، اپنے آقا کے احکامات پر نہ چلنا بے حیائی ہے، زبان سے فرفر ادا کرنا لیکن عمل سے اجتناب کرنا بے حیائی ہے، تم بھی حیا کرنا سیکھو، حیادار بننا سیکھو… ان اعمال کے ساتھ روز حشر اپنے پیغمبر کا سامنا کیسے کرو گے۔ آنحضور نے اپنی امت کے لئے ایک دعا سنبھال کر رکھی ہوئی ہے، ہر نبی کو ایک ایسی دعا مانگنے کی فضیلت بخشی گئی جو مقبول ہوئی۔ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ایسی دعا مانگی۔ ہمارے نبی آخرالزمان نے فرمایا کہ میں نے وہ دعا دنیا میں رہ کر نہیں مانگی، حشر کے روز وہ دعا اپنی امت کے لئے مانگوں گا کہ اے قادر مطلق میری امت کی بخشش فرما دے…
باباجی اپنی سادگی اور پُرکاری میں مجمع سے پوچھ رہے تھے تم نے کبھی سوچا ہے، تم کس نبی کی امت میں سے ہو، ناپ تول کر جنت اور دوزخ کا حساب لگاتے رہتے ہو اور دل کو اس کی یاد سے غافل رکھتے ہو، نعرے لگاتے ہو، طہارت نفسی کا خیال نہیں رکھتے۔ دنیا کی ہرغرض یاد رکھتے ہو، اسوئہ حسنہ کی پیروی کرنا بھول جاتے ہو۔ حضرت سلطان باہوؒ نے کہا ہے:
’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘
بندہ اپنی کسی خواہش سے غافل نہیں رہتا۔ رب اور رسول کے احکامات اسے بھول جاتے ہیں… یہ کیسی بندگی ہے، آج مسلم امہ ساری دنیا میں نشانہ بن رہی ہے۔ نفس کی غلام ہورہی ہے،خود آپ اپنی حالت پر غور کریں، نفس پرستی، ذخیرہ اندوزی، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، تول میں جھول، جھوٹ میں فروغ، تصنع اور بناوت کے شیدائی، دولت کے دیوانے ہوس زر کے پروانے، زانی، شرابی، ضمیر فروش، ایمان فروش… عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھانے والے، یہ سب مسلمان ہی تو ہیں… کونسی برائی ہے جو آج مسلمانوں کی ذات سے وابستہ نہیں ہے۔ کیا کوئی باہر سے آکے بتائے گا۔ نہیں تمہارے اندر سے آواز آئے گی، اندر بولے گا اندر… اندر میں جھاڑو لگائو، کوڑا کرکٹ باہر پھینکو… دور دور سے شوق کے گھائل آئے بیٹھے تھے۔ بابا جی آسان آسان لفظوں میں زندگی کرنے کے گر سمجھا رہے تھے اور کھچاکھچ بھری ہوئی مسجد ہنس رہی تھی اور کہہ رہی تھی: باباجی! یہ اس مسجد سے باہرنکلیں گے تو پھر سے عالی جناب، محترم و مکرم، ملک صاحب، خان صاحب، چودھری صاحب، میاں صاحب ہوجائیں گے… اور جو ’’صاحب حال‘‘ ہوں گے، اس ہال میں اپنا وجود چھوڑ جائیں گے… میٹھے بابا حضرت فریدالدین گنج شکر نے انہیں کہا تھا:
فریدا! ایسے ہو رہو جیسے ککھ مسیت
پیراں ہیٹھ لتاڑیئے فیر وی نہ چھڈے ہریت
لوگ رو رہے تھے اور سسکیوں کی آوازیں ماحول میں رچ بس رہی تھیں اور آواز آرہی تھی دنیا بھر میں جتنی مساجد تعمیر کی گئیں، ان کے پتھر اور کنکر ابراہیمی مسجد ہی سے بھیجے گئے۔ جہاں جہاں مسجد اوّل کا کنکر گرا مسجد تعمیر ہوگئی… تم نے مسالک الگ کرلئے، مساجد علیحدہ بنالیں، تمہارے دل کی دنیا بٹ گئی۔
اے عشق کی گردان کرنے والو، سوچو! کبھی تم نے دلیل باندھی کہ ایک روز، حشر کے روز ہر نبی کی امت اس کے پیچھے کھڑی ہوگی اور تم کیا منہ لے کے اپنے نبی محترمؐ کا سامنا کرو گے… کیا اعمال ہیں تمہارے کیسے اپنے آپ کو شرمندگی سے بچائو گے… آج کے دن سوچو، آج کے دن عید کرو، یہ مبارک دیہاڑ ہر سال تمہیں یاددہانی کرانے آتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے پیغمبر آخرالزمان کے حضور پیش کرنے کے قابل بنائو… حاضرین رو رہے تھے، مسجد ہنس رہی تھی… اور کہہ رہی تھی… کہاں سے لائیں گے جذبۂ ابراہیمی… کون سکھائے گا آداب فرزندی…؟
یہ زائرانِ حریم مغرب ہزار راہبر بنیں تمہارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
(اقبال)