27 دسمبر کی خون آلود شام

سجاد ترین
12ربیع الاول کے روز پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت کی جانب سے وفد کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ لے جانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وفد میں پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ،ندیم افضل چن، مصطفی نواز کھو کھر چوہدری منظور، غلام ستی کے ہمراہ راقم کو بھی ان ساتھ محتر مہ بے نظیر بھٹو کے مقد پر جانے کا موقع ملا۔جہاں پہچ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ منوں مٹی تلے دفن ہوجانے کے باوجود بینظیر آج بھی زندہ ہیں۔بے نظیر بھٹو نے معاشی، سیاسی، سماجی اور قومی و بین الاقوامی محاذوں پر متعدد کامیابیاں حاصل کیں۔ مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں انھوں نے ہر قسم کے حالات کا جرات مندی سے مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ان کے مخالفین بھی ’’آئرن لیڈی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آج بھی لوگ بی بی کے بارے میں انتہائی جذباتی انداز میں بات کرتے ہیں جس طرح بے نظیر کی زندگی میں کرتے تھے۔ راقم الحروف و دیگر صحافیوں نوخیز ساہی اور صابر (کرنل)کے سکھرائر پورٹ پہنچے پر میرہزار خان بجارانی منظور وسان اور دیگر پارٹی قائدین سے ملاقات ہوئی۔ بھٹو خاندان کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعدیہاں تسلسل کے ساتھ آنے جانے والوں کی عقیدت سے اندازہ ہوتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ بینظیر بھٹو کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی ساری زندگی نشیب و فراز کا سامنا کرتے گزری۔ اپنے یوم پیدائش 21 جون 1953 سے لے کر یوم شہادت 27 دسمبر 2007 ء تک ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے وہ ہر مرحلے پر اپنے والد کے سیاسی ورثے کی حفاظت کے لیے آگے آگے رہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی وزارت عظمیٰ کا دور بھی دیکھا اور پھر اسیری سے لے کر انھیں پھانسی دیے جانے تک والد کی جگہ مشکل حالات میں پارٹی کی ذمے داری سنبھالی تو قومی سیاست میں سب کو پیچھے چھوڑدیا۔ ہر قسم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے اصولوں کو اپنا ہتھیار بناکر مخالفین کو زیر کیا۔ بے نظیر محب وطن، غریب پرور اور کرشماتی شخصیت کی مالک تھیں۔ نام کی طرح اْن کی زندگی بھی بے نظیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں بے شمار اعزازات و انعامات کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بے نظیر بھٹو دو بار وزیرا عظم رہیں، والد کے بعد انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ ملک کی کسی بڑی سیاسی جماعت کی خاتون سربراہ مقرر ہوئیں۔ بے نظیر نے اپوزیشن لیڈر کی بھی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اپنے سیاسی کیریر کے دوران انھوں نے ملکی وغیرملکی میڈیا کو ان گنت انٹرویوز دیے، اور ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بے نظیر بھٹو جہاں لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنی رہیں، وہیں نہ صرف عوام کی ایک بڑی تعداد جس کا پی پی سے کوئی تعلق نہیں، ان کی شخصیت کا ہمیشہ گرویدہ نظر آیا۔ حتیٰ کہ رفتہ رفتہ مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے سنے گئے۔بطور وزیراعظم اور سربراہ پیپلزپارٹی، بے نظیر بھٹو نے معاشی، سیاسی، سماجی اور قومی و بین الاقوامی محاذوں پر متعدد کام یابیاں حاصل کیں۔ مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں انھوں نے ہر قسم کے حالات کا جرات مندی سے مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ان کے مخالفین بھی ’’آئرن لیڈی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اْن کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور 1988 سے 1990 رہا جب کہ وہ دوسری بار 1993 تا 1996 وزیراعظم رہیں۔1997 میں منعقدہ عام انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد وہ دبئی چلی گئیں جہاں انھوں نے کئی سال جلاوطنی میں گزارے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں والد کی سزائے موت ،دونوں بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی غیر طبعی موت دیکھی۔ اپنے شریک سفر آصف زرداری کی طویل قید بھی برداشت کی، تو دوسری طرف بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ جیسے بچوں کی موجودگی نے بینظیر کے بہت سے غموں پر مرہم بھی رکھا۔ کراچی کے لیڈی جیننگ نرسری اسکول سے لے کر امریکا کی معروف ہارورڈ یونیورسٹی تک کی تعلیم اوربعد میں برطانیہ کی معروف درسگاہ آکسفورڈ کے لیڈی مارگریٹ ہال میں معاشیات، سیاست، اور فلسفے کی تعلیم نے اْن کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی قابلیت کو نکھارا۔ یہ بینظیر بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہی تھا کہ 1976 میں انھیں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر کام کرنے والی ایشیا کی پہلی خاتون تھیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو سابق صدر پرویزمشرف سے ایک معاہدے کے تحت 2007 میں پاکستان واپس آئیں، گوکہ انھیں شدید سیکیورٹی خطرات کے بارے میں آگاہ کردیا گیا تھا، لیکن بے نظیر نے جگہ جگہ عوامی جلسوں میں شرکت کا فیصلہ کیا ۔ بے نظیر کی آمد کے وقت ہی دہشت گردوں نے ان پر پہلا حملہ کیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد جب لاکھوںکارکنوں پر مشتمل اْن کا قافلہ کراچی ایئرپورٹ سے مزارقائد کی جانب رواں دواں تھا تو کارساز پر دو زوردار دھماکوں نے فضا کوخون آلود کردیاگیا۔ دہشت گردی کی اس بزدلانہ کارروائی میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں، ہم دردوں سمیت تقریباً 150 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے مگریہ دھماکے بھی بے نظیر کے پائے استقلال میں کوئی لرزش پیدا نہ کرسکے۔ وہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے شہر شہر جلسے کرکے عوام سے مخاطب ہوتی رہیں۔ہر شہر اور ہر علاقے میں عوام نے ’’چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر ‘‘ کے نعروں سے اْن کا استقبال کیا جاتا رہا۔پھر 27 دسمبر 2007 خون آلودشام آگئی۔ راولپنڈی میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب میں بینظیر بھٹو نے پاکستان دشمنوں کو بھرپور انداز میں للکارا، جلسے کے فوری بعد جب بی بی بینظیر جلسہ گاہ سے باہر نکلیں تو دہشت گردوں نے انھیں فائرنگ اور دھماکے کا نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ملک و قوم بے نظیر جیسی بے مثال راہ نما سے محروم ہوگئے۔بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ موت برحق ہے ، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کی غیرموجودگی ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور اْن کی جدائی کا دکھ پاکستان کے عوام کو ہوا تو کراچی میں بھی اس لرزہ خیز واقعے پر آنکھیں نم ہوگئیں۔ لاہور، اسلام آباد راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ غرض کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں بے نظیر کی شہادت پر افسوس بھی ہوا اور احتجاج بھی ہوا۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا غم تو فطری امر تھا لیکن بینظیر کی شہادت کا درد ہر خاص و عام نے شدت سے محسوس کیا ہے۔آج 27 دسمبر16 20 کو، جب کہ اس واقعے کو 9سال گزرچکے ہیں، کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بے نظیر بھٹو ہمارے درمیان نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ آ ج بھی پیپلزپارٹی کے ہر جلسے اور ہر تقریب میں ’’زندہ ہے بی بی، زندہ ہے‘‘ کے نعرے گونجتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا نام قومی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا بی بی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 18 اکتوبر 2007ء کے روز کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے میں جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوگئی۔ جلاوطنی کے آٹھ کٹھن سالوں کے بعد میرے قدموں نے پیارے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو میں اپنی آنکھوں سے امڈنے والے آنسوؤں کو نہ روک سکی اور میں نے اپنے ہاتھ بلند کردیے، اظہار عقیدت کے لیے، اظہار تشکر کے لیے اور دعا کے لیے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے کندھوں سے ایک بھاری، کچل دینے والا بوجھ ہٹ گیا ہو۔کئی سالوں بعد، دبئی سے کراچی کو پرواز کرتے ہوئے مجھے علم تھا کہ میرے 2007ء کے استقبال کا موازنہ 1986 کے استقبال سے کیا جائے گا۔ میں جانتی تھی کہ جنرل پرویزمشرف کے مصاحبین یہ موہوم سی آس لگائے بیٹھے تھے کہ میری واپسی کا روکھا پھیکا استقبال ان کی مطلق العنان حکومت کو جائز ثابت کردے گا۔ 18 اکتوبر کے روز جب میں نے طیارے سے باہر قدم رکھا تو مجھے علم نہ تھا کہ مجھے کیا توقع کرنی چاہیے۔اس روز جو کچھ میرے سامنے آیا وہ میرے خوابوں اور میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ایک مطلق العنان ریاست میں بھی، واقعتاً لاکھوں لوگ دور دور سے سفر کرکے میرا اور جمہوریت کی واپسی کا خیرمقدم کرنے کو آئے تھے۔ یہ حقیقی معنوں میں دم بخود کردینے والا نظارہ تھا اور اسے پاکستانی ٹیلی ویژن پر براہ راست پوری دنیا میں بی بی سی اور سی این این پر دکھایا جارہا تھا ۔ پوری دنیا دیکھ رہی تھی اور جو انہوں نے دیکھا وہ ایک قوم کا دوسرا جنم تھا۔جنرل مشرف کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغامات سے مجھے علم ہوا تھا کہ میری واپسی پر مجھے فوراً قتل کرنے کی کوشش کے لیے سرحد اور قبائلی علاقوں سے خودکش دستے بھیجے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت ایک ہمدرد غیرملکی مسلم حکومت کی طرف سے مجھے مقرر کردہ قاتلوں کے نام اور موبائل فون نمبر بھی فراہم کردیے گئے تھے۔ جنرل کے ساتھی مجھے واپس آنے سے روکنے کے لیے، مجھے مزار قائد پر تقریر کرنے سے روکنے کے لیے، ایئرپورٹ سے مزار تک میرے جلوس کو منسوخ کرنے کے لیے فون پر فون کر رہے تھے، مگر میں جانتی تھی کہ جمہوریت پر اور میری قیادت پر یقین رکھنے والے لوگ کراچی کی گلیوں میں میرے منتظر تھے۔تاریک ہوتے آسمان اور پھیلتے ہوئے ہجوم میں سے ایک ایک انچ کرکے آگے بڑھتے ہوئے، ایک عجیب اور پریشان کن عنصر میری نگاہ میں آنے لگا۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ جب ہم کسی گلی کی نکڑ کے نزدیک پہنچتے، سٹریٹ لائٹس دھندلانے اور پھر بجنے لگتیں۔ یہ محسوس کرنے کے بعد یہ کوئی اِکّا دْکّا واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم انداز میں ظہور پذیر ہو رہا ہے، میں نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ وہ جتنے زیادہ ہوسکیں پرنٹ اور الیکٹرانک خبری ذرائع سے رابطہ کریں اور انہیں بتائیں ۔ محترمہ کی ان باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بی بی کو سازش کا علم ہو رہا تھامگر وہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھیں ۔بلا شبہ آج بلاول بھی وہی جنگ جاری رکھنے کیلئے میدان میں اترا ہے،اور آئندہ عام انتخابات میں اس کا فیصلہ ہو کر رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن