محمد ریاض اختر
نو برس قبل آج کے روز انتخابی مہم کے اختتام پرہونے والے اس عدیم المثال سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو شہید کی بیٹی بینظیر بھٹو کی گفتگو کا مرکز و محور کارکن‘ پیپلز پارٹی اور عوام تھے۔ وہ کارکنوں کوعزت دینا اور عزت دلانا چاہتی تھیں اسی روز اسی جلسہ میں دختر مشرق نے وعدہ کیا اور وعدہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ووٹ بھٹو کی پارٹی کو دیں‘ ان شاء اﷲ آپ کے منتخب نمائندے عوام دوستی کا پرچم بلند کریں گے اور جو ایسا نہیں کرے گا اس کا محاسبہ میں نے اور آپ نے مل کر کرنا ہے۔ یہ تھا وہ جوشیلا اور یادگار خطاب جس نے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کے آخری خطاب کویادگار بنا دیا۔پیپلز پارٹی ان دنوں اپنے قیام کے چوتھے فیز میں داخل ہو چکی ہے،کیا یہ اپنے منشور اور بھٹوز کی پرانی روایات کو جاوداں رکھ سکے گی ؟ اس حوالہ سے ہم نے ان صاحبان سے گفتگو کی جو 27 دسمبر 2007ء کے سانحے کے بعد آج بھی پیپلز پارٹی کی تاریخی جد جہد سے جڑے رہے ہیں۔
سٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے متعلق پی پی کے 66 سالہ سینئر کارکن اشفاق احمد قاضی نے ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پیپلز پارٹی کو اپنے دل میں بسایا ان کی نصف سے زائد عمر پارٹی اور قائدین سے محبت کی قیمت میں جیل ‘ کال کوٹھڑی ‘ ٹارچر سیل میں گزری۔ انہیں کرنل حبیب ‘ سردار سلیم‘ نذر کیانی‘ علی اصغر کیانی‘ بھائی سلمان‘ راجہ انور‘ باؤ رشید‘ باؤ لطیف‘ ظفر اﷲ شاہ‘ آغا ریاض الاسلام‘ سردار شاہ اور ساجد جیسی نظریاتی شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ قاضی صاحب بتاتے ہیں ناہید خان اور صفدر عباسی کی قیادت میں سٹیج کمیٹی نے 24 دسمبر سے اپنی ذمہ داریاں شروع کیں۔ کمیٹی ابن رضوی‘ زمرد خان‘ بابو ادریس‘ عاطف کیانی‘ نسیم عباسی اور رشید میر پر مشتمل تھی پنڈال میں لوگوں سے مناسب فاصلے پر سٹیج بنانے کی ہدایات تھیں مگر بی بی شہید کے کہنے پر یہ فاصلہ بھی کم سے کم کر دیا گیا۔ پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی صبح سویرے ہی لوگوں کی آمد شروع ہو گئی سہ پہر میںبی بی کی آمد تھی۔ اشفاق قاضی نے بتایا کہ جلسہ کے بخیریت خاتمہ کے لئے ہم دعا گو تھے۔روانگی پر‘ آتش بازی ہوتی رہی ؛یکایک ایک زور دار دھماکے کی آواز نے انہیں خوف زدہ کر دیا۔ اطلاع یہ تھی کہ دھماکہ ہوا ہے بی بی خیریت سے روانہ ہو گئی ہیں۔ دوسری اطلاع بی بی کے زخمی ہونے کی ملی‘ جبکہ تیسری اطلاع نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا۔ قاضی اشفاق کا کہنا تھا بھٹو شہید کی بیٹی میں لیڈر شپ کے اوصاف تھے کہ وہ عالم اسلام کے ہیروز میں شامل تھیں۔آج سوال یہ ہے کہ پنجاب اور مرکز کی پارٹی قیادت نے کیاکبھی ان مقامات پر کارکنوں کے ساتھ وزٹ کیا ؟ کبھی کسی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے طریق کار‘ بجٹ اور کارکنوں کی حالت کا جائزہ لیا ؟…پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل جسے راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم بننے پر نئی پہچان ملی‘ گوجر خان سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمان مرزا پیپلز پارٹی کے بانی کارکن ہیں وہ اپنی تحصیل میں پی پی کے صدر رہے ۔ 27 دسمبر 2007ء کے تاریخی جلسہ کی یادیں شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا وہ جلسہ خالصتاً پیپلز پارٹی راولپنڈی کا تھا تاہم وہ اور ان کے دوست جلسہ کی کامیابی کیلئے رابطہ میں رہے۔ اس روز ہم گوجر خان سے بہت بڑا جلوس لے کر جلد ہی راولپنڈی پہنچ گئے تھے ہمارے قافلے کی گاڑیاں لیاقت باغ سے ملحق مقام پرکھڑی تھیں جلسہ کے انتظامات بہت پیارے تھے سٹیج دلکش لگ رہا تھا۔ اس روز پاکستان کی مقبول لیڈر نے اپنے والد بھٹو مرحوم کی حقیقی ترجمانی کی جب اس روز ان کی شہادت کے بعد پورا پاکستان مغموم اور ہر آنکھ پرنم تھی۔ پیپلز پارٹی کی اب صورتحال کیسی ہے؟ اس سوال پر عبدالرحمن مرزا نے کہا کہ بلاول بھٹو کی شکل میں قوم کو نیا لیڈر مل گیا ہے۔ ان شاء اﷲ پیپلز پارٹی کی پرانی شان پرانی آن بحال ضرور ہو گی۔ یہ د رست ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سیکورٹی حصار کا سامنا رہاہے افسوس ہے کہ دوسری اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ غیر ضروری پروٹوکول کے باعث ووٹرز اور نظریاتی کارکنوں سے دور ہے لیکن ہم امید ہیں ان شاء اﷲ لوگوں کی تقدیر بدلنے کے لئے بینظیر بھٹو کا وارث اپنا سیاسی سفر مویں سے شروع کرے گا جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔
ابن رضوی کا تعلق راولپنڈی شہر سے ہے ان کی پارٹی وابستگی کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ان کے برادر اکبر شمیم حیدر سید کبھی بینظیربھٹو کی سیاسی مشاورتی ٹیم کا حصہ تھے ان کے دل میں بھٹو خاندان سے محبت اور پیپلز پارٹی سے الفت کی شمع ہمیشہ روشن رہی۔ گذشتہ سال یونین کونسل 39 چٹیاں ہٹیاں میں ابن رضوی کی رہائش گاہ سے متصل امام بارگاہ میں خود کش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہوئے زخمی ہونے والوں میں ابن رضوی بھی شامل تھے دھاڑے مار مار کر وہ پیغام دیتے رہے کہ ظالموں اگر تمہارا ہدف میں تھا تو میرے معصوم ساتھیوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ ابن رضوی 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کے تاریخی جلسے کی انتظامی کمیٹی کے اہم رکن تھے ان کا کہنا تھا بی بی محترمہ اس روز بہت خوش تھیں وہ پنڈال میں ریکارڈ حاضری سے بہت مسرور ہوئیں انہوں نے کئی مرتبہ بے مثال انتظامات کرنے پر پی پی راولپنڈی اور انتظامی کمیٹی کی توصیف کی۔ قاتلوں کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ اب سانحہ لیاقت باغ کے راز سے پردہ اٹھنا چاہئے۔ ابن رضوی نے بتایا کہ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اندرون ملک اہم ترین شہروں میں وزٹ کا موقع ،سیکورٹی حالات کے تناظر میں انہیں کہیں جانے سے روکنے کی کوشش کی جاتی مگر بینظیر بھٹو فیصلہ کر لینے کے بعد اس میں تبدیلی نہیں کرتی تھیں۔ زمرد خان پارٹی کے سابقہ دور میں بیت المال کے چیئرمین رہے ان کی سماجی‘ عوامی خدمات کے سب معترف ہیں 27 دسمبر کے جلسہ کے وقت زمرد خان پیپلز پارٹی سٹی کے صدر تھے ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اور عوامی جلسے کے انتظامات مثالی اور قابل تعریف تھے۔ اس روز بی بی محترمہ زیادہ مسرور تھیں انہوں نے خطاب کے دوران پارٹی امیدواروں سے عوامی خدمت کا حلف بھی لیا۔ الحمدﷲ ہم آج تک اس حلف کی پاسداری کر رہے ہیں اور اب بلاول بھٹو پنجاب سے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں اﷲ کرے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں۔بینظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کو جمہوریت کی بقاء کے لئے ساتھ میز پر بٹھایا اور انہیں بتایا کہ پاکستان اور عوام کی خوشحالی کا ایجنڈا کیسا ہونا چاہئے۔ بینظیر بھٹو کی بصیرت ملک وقوم کا سرمایہ تھی ان کی یادیں پورے ملک کی طرح اہل راولپنڈی کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔