پاکستان کی سیاست میں نہ صرف ہلچل مچی ہوئی ہے بلکہ ایک ہیجان کی کیف ہے۔سیاسی درجہ حرارت نقطہ اُبال پر آچکا ہے۔سیاسی اختلافات تو رائے کے اختلاف تک محدود ہونے چاہئیں مگر ہمارے ہاں سیاست کو دشمنی میں بدل دیا گیا ہے۔الزام سے بات بڑھ کے دشنام تک پہنچی ہوئی ہے۔اگر نئی نسل آج کی سیاسی ایلیٹ کو آئیڈیل بنالے تو ہرطرف اخلاقیات کی دھجیاں اڑتی ہوئی نظرآئیں گی۔سیاست میں حذب اختلاف اور حذب اقتدارجمہوریت کا اٹوٹ جزو اور تحمل وبرداشت جمہوریت کا خاصہ ہے۔ہماری سیاست اور جمہوریت تحمل و برداشت سے تہی ہوچکی ہے۔پاکستان مسلم لیگ اقتدار میں ہے تو نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن ٹھہری مگر وہ اپوزیشن ہونے کے اصولی تقاضے پوری نہیں کررہی وہ حکومت کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔مسلم لیگ ن گزشتہ دور میں پانچ سال میں کچھ عرصہ توپی پی پی کے ساتھ حکومت کا حصہ رہی ،بوجوہ الگ ہوئی تو باقی عرصہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی۔ کسی بھی ملک کیلئے دوپارٹی سسٹم آئیڈیل ہوتا ہے، نوے کی دہائی میں یہ پروان چڑھ رہا تھا تو اسے انہی دو پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پپارٹی ایک دوسرے کیلئے دشمنی کے جذبات کا اظہار کرکے برباد کردیااور اب اس قدر ایک دوسرے کیلئے فریفتگی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا امتیاز معدوم ہوتا نظر آرہا ہے۔ دونوں رویے اعتدال کی نفی کرتے ہیں دونوں ہی سے دوجماعتی نظام کو شدید نقصان پہنچا اور اسکی مرتکب دونوں پارٹیاں بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔پیپلز پارٹی شدید نقصان سے دوچار ہوئی،مسلم لیگ ن پنجاب حکومت کی بہترین کاکردگی کی وجہ سے سنبھلی ہوئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو پستیوں کی تہہ تک پہنچانے میں اس کی پانچ سالہ بدترین کارکردگی کا بھی ہاتھ ہے۔پیپلز پارٹی کو اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے ایک عرصہ درکار ہے بشرطیکہ اس کی قیادت اپنی اصلاح کیلئے عزم پیہم بھی رکھتی ہو،اس نے مرکز میں حکومت کے دوران جو کارہائے نمایاں انجام دے کے 2013ء کے الیکشن میں اپنے ہاتھوں دھول اڑا کے اپنے سر میں ڈالی آج وہی کچھ سندھ میں کیا جارہا ہے۔ گویا الیکشن میں جو ہوا اس سے سبق سیکھنے کے بجائے مرکز میں جو کچھ کرنے کی جو کسر رہ گئی تھی وہ سندھ میں پوری کرکے سندھ کے ووٹر کو اپنے اوپر اعتماد کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔آصف زرداری آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیکر وطن چھوڑ گئے اب انکی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس عمران خان کو خطرہ بنتے دیکھ کر لائے گئے ہیں۔وہ شاید کھل کھیلنے کی پلاننگ لے کے آئے تھے مگر انکے دوستوں کے گھر اور دفاتر پر چھاپوں سے ان کو حد میں رہنے کا پیغام دیدیا گیا ہے۔اب انکا آج کا بڑا شو بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب کا ہوگا۔بلاول نے آج کی وہ مطالبات تسلیم کرنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جن کی حیثیت تجویز سے زیادہ نہیں ہے جن کو حکومت مان لے تو اس کی صحت اور گورننس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پیپلز پارٹی کے قیادت بلاول سے انقلابی تبدیلی لانے اور سیاست میں طوفان برپا کرنے کی امیدخام لگائے بیٹھی ہے،ان مطالبات میں ایک بھی عوامی مفاد کا مطالبہ نہیں ہے، انہوں نے گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف کوئی بات کی نہ یہ مطالبات کا حصہ ہے گویا وہ پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کیلئے عوام کو ساتھ ملانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔بلاول اور انکے ڈیڈی محترم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچانے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، بینظیر کا مشن تو ان کے شوہر نامدار کے علم میں ہوگا البتہ بھٹو مرحوم غریب عوام کیلئے جو کچھ کرنا چاہتے تھے اس سے بڑھ کر خادم پنجاب میاں شہباز شریف نے کردکھایا ہے۔تازہ ترین اقدام میں انہوں نے عوام کے سر پر مسلط پٹواری اور پٹوار سسٹم کو اتار کر پھینک دیا ہے۔ اس وقت پنجاب بھر میں موجود مالکان اراضی کی تعداد 5.5 کروڑ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں موجود مالکان اراضی کے انفرادی کوائف اور کھاتہ جات کا مختلف دستاویزات، رجسٹروں میں ہاتھ سے اندراج ایک محنت اور وقت طلب کام ہے۔ جسکی وجہ سے ریکارڈ کی رجسٹر در رجسٹر منتقلی سے غلطی کے امکانات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کی تصیح کے عمل کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے اور مالکان اراضی کیلئے مزید پیچیدگیاں و مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ کاغذات کی صورت میں موجودہ ریکارڈ بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ حادثاتی طور پر کھونے، سیلاب یا آگ کی صورت میں تلف ہونے کے خطرے سے دو چار رہتا تھا جس سے مالکان اراضی کے حقوق متاثر ہوتے تھے۔ حکومت پنجاب نے 12 ارب روپے کی خطیر رقم سے کمپیوٹرائزیشن آف لینڈ ریکارڈ کے منصوبہ ’’لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹمز‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب بھر کے تمام اضلاع میں محکمہ مال کے عملہ (پٹواری صاحبان) کی تحویل میں موجود 5.5 کروڑ سے زائد مالکان اراضی کے کاغذی شکل میں موجود کوائف کو بذریعہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے ۔