وطن واپسی سے ایک روز قبل دبئی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے واضع طور پر کہا تھا کہ "انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں، بے شک مجھے ائیرپورٹ پر گولی مار دی جائے مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے وطن ضرور جائو ں گی۔ میرے ملک اور میرے عوام کو میری ضرورت ہے"۔ وطن واپسی کے وقت محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بخوبی علم تھا کہ ان کا ملک اس طرح نہیں رہا جیسا انہوں نے چھوڑا تھا۔ مذہب کی آڑ میں دہشت پھیلانے والے دھرتی پر خونی پنجے گاڑ چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ان وحشی درندوں کی مزاحمت کرنے وطن واپس آئی تھیں۔ جنہوں نے وزیرستان سے لے کر کراچی تک بارود کے ڈھیرلگا رکھے تھے۔ یہ شدت پسند ملک کے چپے چپے پر بم پھوڑ رہے تھے۔ سکول، بازار، مساجد، امام بارگاہ تک ان کی درندگی سے محفوظ نہیں تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اس بات کا سخت رنج تھا کہ ان شدت پسندوں نے سوات سے ملک کا پیارا پرچم اتار دیا تھا۔ افواج پاکستان کے جوانوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے۔ یہ صورتحال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وطن واپسی سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے تمام سیاسی مخالفین کو معاف کر دیا تھا حالانکہ انہوں نے انہیں بہت دکھ دئیے تھے اور ان کے لئے وطن کی دھرتی تنگ کر دی تھی۔ اگر ان کی کوئی لڑائی تھی تو فقط ان عناصر سے جو مذہب کی آڑ میں معصوم انسانوں کا خون بہا رہے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک ذہین اور قابل سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک پکی وطن پرست بھی تھیں۔ آپ کی ذہانت و دوراندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1989ء میں دورہ امریکہ کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے امریکی صدر بش کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ ان جنگجوئوں کی حمایت ختم کرے۔ یہ عناصر پہلے میرے ملک کے لئے خطرہ بنیں گے اور پھر دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہوں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہ جنگجوامریکہ کے لاڈلے تھے۔ یہ کہنا بھی ہرگز غلط نہ ہوگا کہ آمر جنرل ضیاء نے اپنے شخصی اور ناجائز اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ملک کو عالمی قبضہ گیروں کے پاس رہن رکھ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے بدمعاش اور غنڈے ہمارے معزز مہمان بن گئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کے پالے ہوئے لاڈلوں نے سانحہ نائن الیون برپا کیا۔ اکتوبر 2007ء کو جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو ان کے مخالفین کے پیٹ میں این آر او کے مروڑ اٹھے۔ جی ہاں! محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور سیاستدان مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ ان کے پاس مذاکرات کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ عدالت عظمیٰ نے آئین کا دفاع کرنے کے بجائے آئین شکن کے ہاتھ مضبوط کئے تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان نے آئین شکن کو آئین کی چیرپھاڑ کا اختیار دے دیا تھا اور آئین شکن کے ایل ایف او پر حلف لیا، رہی سہی کسر ان مذہبی جماعتوں نے پوری کی جن کو پیپلزپارٹی کی مخالفت کے بدلے پارلیمنٹ میں لایا گیا تھا۔ ان مذہبی جماعتون نے جنرل مشرف کے لئے آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دیا۔ نومبر2007ء کو جب جنرل مشرف نے دوسری بار ایمرجنسی نافذ کی تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اکیلے جنرل مشرف کی مزاحمت کی باقی سب پارٹیاں پتلی گلی سے گم ہوگئیں۔ 18اکتوبر کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی کے وقت کارساز کے مقام پر ڈیڑھ سو کے قریب انسانوں کا خون کیا گیا تو این آراو پر گلا پھاڑ کر اپنا گریبان چاک کرنے والوں کی زبانیں عارضی طور پر بند ہوگئیں۔ دراصل آمر کی تابعداری کرنے والوں کی سیاست کو خطرہ لاحق تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی پہلی ترجیح آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات تھی تاکہ اقتدار آمریت سے جمہوریت کو منتقل ہو۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا اصولی موقف تھا کہ کوئی آمریت دہشتگردوں کو شکست نہیں دے سکتی کیونکہ آمریت خود دہشت کی علامت ہوتی ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا راستہ روکنے کے لئے ایک طرف دہشتگرد بارودی سرنگیں بچھا رہے تھے تو دوسری طرف کچھ عناصر نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ انتخابات کے بائیکاٹ کا مقصد اور مطلب یہ تھا کہ صورتحال جوں کی توں رہے جو دراصل جنرل مشرف کی غیراعلانیہ حمایت تھی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مضبوط سکیورٹی ایسے سیاستدانوں کو دی گئی جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ان سیاستدانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بے شمار خطروں کے باوجود سکیورٹی مہیا نہیں کی گئی۔ بطور سابق وزیراعظم اور عالمی لیڈر کے ناطے مضبوط اور غیرمعمولی سکیورٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا حق اور ریاست کی ذمہ داری تھی۔ ان کی یقینی حفاظت کو نظرانداز کرنا دراصل ان پر حملہ کرنے والوں کی سہولت کاری تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کرشمہ ساز اور سحر انگیز شخصیت تھیں وہ عالمی رہنمائوں سے برابری کی سطح پر گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بقول سابق امریکی صدر کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہیلری کے ہمیں پتہ چلا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہیداس مقام سے گزریں گی۔ ہم نے سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر ان کا انتظار کیا تھا کہ ان کی ایک جھلک دیکھیں۔ اس لئے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت کے لئے لڑائی لڑی، سیاسی جدوجہد کے دوران بہت سی تکالیف اور مشکل مرحلے انتہائی بہادری اور ثابت قدمی سے طے کئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید دو مرتبہ اقتدار میں آئیں تو ملک اور عوام کی بھرپور خدمت کی۔ بھارت سے ایک دوسرے ملک کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود معاملات قابو میں رہے۔ آپ نے پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خواب کی مکمل تعبیر کی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہیدنے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی دی، میراج طیارے اور اگوسٹا سب میرائن ان کا ہی ملک کے لئے تحفہ تھا۔ پولیو سے پاک ملک ان کا خواب تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہیدفرمایا کرتی تھیں کہ میں نہیں چاہتی کہ میرے ملک کے بچے گندگی کے ڈھیر سے رزق تلاش کریں۔ انہوں نے لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دے کر ان کا مستقبل محفوظ کیا۔ 18اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ملک گوناگوں مشکلات کا شکار تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہیدمیں یہ بھرپور صلاحیت تھی کہ وہ ملک کو مشکلات سے نکالیں مگر یہ بات وطن دشمنوں کو پسند نہیں تھی۔آج کے دن انہیں راولپنڈی میں سرعام قتل کر دیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ عوام کا قائد شان سے جیتا ہے اور وقار سے امرہوتا ہے۔ ان کے سیاسی جانشین آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہر خواب کی تعبیر کی اور ان کے مشن کی تکمیل کی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہیدنے زندگی بھر 1973ء کے آئین کی بحالی کے لئے جدوجہد کی اور آصف علی زرداری نے اس آئین کو اصل صورت میں بحال کرکے پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا۔ صوبوں کو خودمختاری، گلگت بلتستان کے عوام سے محترمہ شہید کا کیا ہوا وعدہ پورا کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا۔18دسمبر 2008ء کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا خیال تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے بعد بھٹو شہید کا نظریہ ختم ہو جائے گا، وفاق کی زنجیر ٹوٹ جائے گی مگر ان کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوگیا جب بلاول بھٹو زرداری نے "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کا نعرہ لگایا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اب پیپلزپارٹی کا پرچم تھام لیا ہے۔ عوام کو بلاول بھٹو زرداری میں قائد عوام بھٹو شہید بھی نظر آتے ہیں اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی۔ بقول شاعر
"یہ روشنی ہی تیرا انتقام ہے بی بی"