بہت کم لوگوں کو مرنے کے بعد وہ مقام حاصل ہوتا ہے جوکہ شہید محترمہ بے نظیربھٹو کوہوا۔ جہاں بھی ذکرکرو، جہاں بھی نام لو بے شک کسی اور جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا پھرسیاست سے کوئی تعلق نہ ہو پھر بھی بی بی کا نام محبت وعقیدت سے لیتے ہیں اس لئے نہیں کہ وہ ایک وزیراعظم کی بیٹی یا خود وزیراعظم تھیں اس لئے کیونکہ وہ مصیبتوں، جدوجہد اور انتھک محنت کی بھٹی میں تپ کرکندن سے سونا بن کر نکلی تھیں۔ یہ ہر عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ محترمہ نے بھٹوصاحب کی شہادت کے بعد کم عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ ڈور کو سنبھالا اور حالات کا تجزیہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچیں کہ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ان کی ضرورت ہے۔محترمہ کی زندگی نشیب و فراز اور عروج و زوال کی ایک داستان ہے اور پھر پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے سے لے کر دوبار وزیراعظم بننے اورپھر راولپنڈی لیاقت باغ میں شہادت تک وہ زندگی بے نظیرہوگئی۔بے نظیر جس کے معنی ہیں اس جیسا کوئی نہیں لیکن وہ خود سب کے لئے مثال بن گئیں ۔ ایک بیٹی کی، ایک بہن، ماں، بیوی اور ایک ایسی لیڈر جس کا نعم البدل ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی عظیم جدوجہد پر مبنی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی گھاٹ میں شہادت محترمہ نے جس طرح کے مشکل حالات دیکھے مہنیوں جیل کاٹی اور وہاں پر گندگی کی وجہ سے بی بی کے کان میں شدید انفیکشن ہوگیا۔ آپ کو ہسپتال میں رکھا گیا اور پھر گھر میں نظربند کردیا گیا محترمہ کی ثابت قدمی اورحوصلے نے مایوس جیالوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی اور انہوں نے بھی جیلیں کاٹیں کوڑے کھائے پھانسیاں چڑھے لیکن ہمت نہیںہاری۔ یہ دیکھتے ہوئے آمر وقت نے بی بی کو ملک بدر کر دیا محترمہ نے جلاوطنی میں بھی اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا اور اس امتحان کے وقت میں جب بھٹو شہید کے کئی ساتھیوں نے بی بی کا ساتھ چھوڑ دیا محترمہ ثابت قدم رہیں اور پارٹی کے جھنڈے کو تھامے رکھا۔ محترمہ کو بہت مشکلات کا سامنا تھا اس میں سب سے پہلے ایک قدامت پسند معاشرے میں خاتون کی لیڈرشپ کو قبول کروانا تھا۔
واضح ہے کہ عورت کیلئے آزاد معاشرے میں آسانیاں نہیں ہیں بے شک وہ کہیں بھی ہو ہمیں یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ہم مردوں کے برابر ہیں کچھ زیادہ کرکے دکھانا پڑتا ہے ہمیں زیادہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اورقربانیاں دینا پڑتی ہیں اور جذباتی طور پر ناانصافیوں سے اپنا بچاؤکرنا پڑُتا ہے۔ اور قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور جذباتی طور پر ناانصافیوں سے اپنا بچاؤ کرنا پڑتا ہے کئی بار خاندان کے مرد ہی سے‘‘۔ ’’میں نے یہ جانا بہت سارے لوگ مخالفت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ علماء یہ مسئلہ لے کر مساجد میں چلے گئے کہ پاکستان نے اپنے آپ کو مسلمان ممالک سے خارج کر دیا ہے ایک عورت کو ووٹ دیکر عورت نے مسلمان معاشرے میں مرد کی جگہ کو غصب کر لیا ہے۔‘‘
دوسرا چیلنج محترمہ بینظیر بھٹو کو درپیش تھا کہ وہ پاکستان کو انتہا پسندی سے اعتدال پسندی کی طرف لانا چاہتی تھیں، آمریت سے جمہوریت کی طرف۔ …
’’فوجی آمریت بندوق کی طاقت سے جنم لیتی ہے اس لئے اس کا مقصد قانون کی حکمرانی کو کم کرنا اور طاقت، ہتھیار، تشدد اور عدم برداشت کی ثقافت کا جنم ہے۔‘‘
’’پاکستان کے مستقبل میں زندہ رہنے، استحکام اور تحفظ عوام کو اختیار دینے اور سیاسی اداروں کے قیام پر منحصر ہے۔ میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ صرف جمہوریت سے ہماری نسلوں کے دل و دماغ کی بنیادی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔‘‘مسلمان ممالک میں پہلی بار خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان کو قائداعظم کے نظریے کے مطابق ایک ایسا ملک بنانا چاہتی تھیں جہاں مذہب کو سیاست کے ساتھ استعمال نہ کیا جاسکے۔ ایک ایسے انسانی مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام جہاں ذات، عقیدہ، رنگ اور جنس سے بلا امتیاز اور برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم ہوں۔ بی بی اپنی شہادت سے پہلے ترقی کے بہت سارے منصوبے شروع کرنا چاہتی تھیں تا کہ مزدوروں کو نوکری کے مواقع مل سکیں۔ گندم اور دوسری اجناس کی قیمت میں اضافہ کر کے غریبوں، کسانوں اور ہاریوں کی زندگی کو آسان کرنا چاہتی تھیں اور سب سے بڑھ کر وہ جمہوری انداز میں برداشت کے رواج کو بڑھانا چاہتی تھیں۔ ان لوگوں کے دل جیتنے کیلئے جو انتہا پسندی کی طرف راغب ہو رہے ہیں مدرسوں میں اصلاحات کرنا چاہتی تھیں اور فاٹا، بلوچستان، جنوبی پنجاب، نارتھ وزیرستان میں نوکریاں دے کر ان کی محرمیوں کو دور کرنا چاہتی تھیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ادھورے مشن کو پورا کرنے والی بینظیر بھٹو 2008ء کے منشور میں بہت کچھ لیکر آئی تھیں۔ لیکن وہ طاقتیں جو پاکستان کو تاریکی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتی تھیں انہیں یہ پسند نہیں آیا۔بینظیر بھٹو جانتی تھیں کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اس ملک کو بینظیر کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی جمہوریت کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے اس لئے پیپلز پارٹی جمہوریت کا دفاع کرتی ہے۔ اب جب کہ گڑھی خدا بخش میں شیدائیوں کا میلہ لگنے کو ہے۔ جوق در جوق قافلے چلنے کو ہیں بہت ہی بھاری دل کے ساتھ ’’سلام بے نظیر‘‘ …؎
نظر میں بھر کے جنوں اور دل میں بے تابی
قدم بڑھاؤ، ابھی سفر رہ گیا باقی
یہ کاروانِ لہو ہے گرم کرو اس کو
یقیں کی لو میں چل پڑو تو ہے فتحیابی